مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4055
عن أم كرز قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : أقروا الطير على مكناتها . قالت : وسمعته يقول : عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة ولا يضركم ذكرانا كن أو إناثا . رواه أبو داود وللترمذي والنسائي من قوله : يقول : عن الغلام إلا آخره وقال الترمذي : هذا صحيح
عقیقہ کے جانوروں کی تعداد
حضرت ام کرز ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں قرار دو، ام کرز ؓ کہتی ہیں کہ۔ اور میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ ( عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے اور اس میں تمہارے لئے کوئی نقصان نہیں ہے کہ وہ ( بکری) نر ہو یا مادہ، یعنی اس بات کا لحاظ ضروری نہیں کہ لڑکے کے عقیقہ میں بکرے ذبح کئے جائیں اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری ذبح کی جائے ( ابوداؤد، ترمذی) نسائی کی روایت میں یقول عن الغلام سے آخر تک ہے۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

تشریح
مکنات میم کے زبر اور کاف کے زیر اور زبر کے ساتھ ہے اور مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں کاف کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اس کے معنی مکان کے ہیں۔ اس ارشاد گرامی پرندوں کو ان کے کھونسلوں میں قرار دو کا مطلب یہ ہے کہ ان ( پرندوں) کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو اڑاؤ نہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکنات اصل میں جمع ہے مکنۃ کی جس کے معنی سو سمار ( گوہ) کے انڈے کے ہیں، لیکن یہاں یہ لفظ مطلق انڈوں کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر پرندے انڈوں پر بیٹھے ہوں تو ان کے گھونسلوں کو ہلا کر ان کو ستاؤ مت۔ یا پھر اس ارشاد گرامی کا تعلق تطیر اور فال بد لینے کی ممانعت سے ہے، جیسا کہ عرب میں لوگوں کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا، یا کہیں کا سفر کرنے کا ارادہ کرتا، تو پرندے کے گھونسلے پر آتا اور اس کو چھیڑ کر اڑاتا، اگر وہ پرندہ داہنی طرف اڑتا تو مبارک جان کر اور فال نیک سمجھ کر اس کام کو کرتا، یا سفر پر روانہ ہوجاتا اور اگر وہ پرندہ بائیں طرف اڑتا تو اس کو منحوس سمجھ کر اس کام یا سفر سے باز رہتا، اس کو تطیر کہتے ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ پرندہ جہاں ہو اس کو وہیں رہنے دو کہ اس کو مت اڑاؤ اور نہ اس سے بد فالی لو۔
Top