مشکوٰۃ المصابیح - صلح کا بیان - حدیث نمبر 3945
وعن عائشة قالت في بيعة النساء : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يمتحنهن بهذه الآية : ( يا أيها النبي صلى الله عليه و سلم إذا جاءك المؤمنات يبايعنك ) فمن أقرت بهذا الشرط منهن قال لها : قد بايعتك كلاما يكلمها به والله ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة
عورتوں کی بیعت
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عورتوں کی بیعت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ ان عورتوں کو ( جو مکہ سے آتیں اور قبولیت اسلام کا اظہار کرتیں) اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ ) 60۔ الممتحنہ 12) اے نبی! جب مؤمن عورتیں آپ ﷺ کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوں الخ۔ چناچہ ان میں سے جو عورت اس آیت میں مذکورہ شرائط کو ماننے کا اقرار کرتی آپ اس سے فرماتے کہ میں نے تم کو بیعت کیا۔ درآنحالیکہ آپ گفتگو کرتے اور عورت سے یہ بات فرماتے مگر اللہ کی قسم! کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت کو بیعت کیا ہو اور اس کے ہاتھ کو آپ ﷺ کے ہاتھ نے چھوا ہو۔ ( بخاری و مسلم)

تشریح
اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے۔ یعنی اس آیت میں عورتوں کے لئے جن احکام کی پابندی کو بیعت کی شرط قرار دیا گیا ہے آپ ﷺ ان عورتوں سے ان احکام پر عمل کرنے کا عہد کرتے جب وہ عہد و اقرار کرتیں تو آپ ﷺ ان کو بیعت کرتے چناچہ اس پوری آیت کا مفہوم و مضمون یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان شرائط پر ( یعنی ان احکام پر عمل کرنے کی) بیعت کریں کہ وہ ( عورتیں) کسی ذات اور کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں مانیں گیں ( یعنی ہر طرح کے شرک سے کلیۃ اجتناب کریں گیں) چوری نہیں کریں گیں، زنا کی مرتکب نہیں ہونگی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گیں ( جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بیٹیوں کو مار ڈالا جاتا تھا) کسی پر تہمت نہیں لگائیں گیں اور عصیان نہیں کریں گیں ( یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے رو گردانی نہیں کریں گیں، اس اعتبار سے یہ آیت کریمہ کی تفسیر و وضاحت ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکی ہے یعنی آیت ( يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ ) 60۔ الممتحنہ 12) حدیث کے آخری جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ بیعت، ہاتھ میں ہاتھ لے کر یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرلی جاتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ عورتوں سے زبانی بیعت لیتے تھے یعنی ان سے یہ فرماتے تھے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض مشائخ عورتوں سے بیعت لینے کا جو یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ مرید کرتے وقت کسی برتن میں رکھے ہوئے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اور وہ عورت بھی اپنا ہاتھ اس پانی میں ڈالتی ہے، یا بعض حضرات یہ کرتے ہیں کہ کسی کپڑے کا ایک آنچل اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہیں اور دوسرا آنچل عورت پکڑ لیتی ہے، تو اس طرح کے تکلّفات کی ضرورت نہیں بلکہ جو طریقہ آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اسی پر اکتفا کرنا افضل و احسن ہے۔ مؤلف کتاب نے بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں باب الصلح میں اس لئے نقل کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کا صحابہ کرام سے بیعت لینے کا مرحلہ بھی آیا تھا جو بیعت الرضوان کے نام سے مشہور ہے اور جس کو قرآن کریم نے بھی اس آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 48۔ الفتح 18) میں بیان کیا ہے اسی مناسبت سے عورتوں کی بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں نقل کیا گیا ہے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر عورتوں سے بیعت نہیں لی گئی تھی۔
Top