مشکوٰۃ المصابیح - صلح کا بیان - حدیث نمبر 3949
عن البراء بن عازب قال : اعتمر رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذي القعدة فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على أن يدخل يعني من العام المقبل يقيم بها ثلاثة أيام فلما كتبوا الكتاب كتبوا : هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله . قالوا : لا نقر بها فلو نعلم أنك رسول الله صلى الله عليه و سلم ما منعناك ولكن أنت محمد بن عبد الله فقال : أنا رسول الله وأنا محمد بن عبد الله . ثم قال لعلي بن أبي طالب : أمح : رسول الله قال : لا والله لا أمحوك أبدا فأخذ رسول الله صلى الله عليه و سلم وليس يحسن يكتب فكتب : هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله : لا يدخل مكة بالسلاح إلا السيف في القراب وأن لا يخرج من أهلها بأحد إن أراد أن يتبعه وأن لا يمنع من أصحابه أحدا إن أراد أن يقيم بها فلما دخلها ومضى الأجل أتوا عليا فقالوا : قل لصاحبك : اخرج عنا فقد مضى الأجل فخرج النبي صلى الله عليه و سلم
معاہدہئ حیبیہ کی کتابت آنحضرت ﷺ کے قلم سے
حضرت براء ابن عازب ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ماہ ذیقعدہ (٦ ھ) میں عمرہ کے لئے ( مدینہ سے) تشریف لے گئے مگر اہل مکہ نے اس سے انکار کردیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کا موقع دے دیں ( یعنی انہوں نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ میں آنے سے روک دیا) تاآنکہ آنحضرت ﷺ نے اہل مکہ سے اس بات پر مصالحت کرلی کہ آپ ﷺ ( آئندہ سال) مکہ میں آئیں اور اس وقت بھی ( صرف) تین دن مکہ میں قیام کریں، چناچہ جب صلح نامہ لکھا گیا تو ( آنحضرت ﷺ کی طرف سے) صحابہ کرام نے ( آنحضرت ﷺ کا اسم گرامی اس طرح لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے مصالحت کی ہے اہل مکہ نے ( یہ الفاظ دیکھ کر آنحضرت ﷺ سے کہا ہم تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اگر ہمارا علم یہ ہوتا ( یعنی ہمیں اس پر اعتقاد ہوتا) کہ تم اللہ کے رسول ہو تو ہم تمہیں ( مکہ میں داخل ہونے سے) روکتے ہی کیوں، البتہ ( ہم تو صرف اتنا مانتے ہیں کہ) تم محمد ہو جو عبداللہ کے بیٹے ہیں، لہٰذا اس صلح نامہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھو )۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ( یہ محض تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو میری یہ دونوں صفتیں یعنی اللہ کا رسول ہونا اور محمد ابن عبداللہ ہونا آپس میں اس طرح لازم ملزوم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتیں، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں کو ذکر کیا جائے یا ایک ہی کو ذکر کردیا جائے) پھر آپ ﷺ نے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے فرمایا ( جو صلح نامہ لکھ رہے تھے) کہ رسول اللہ لفظ کو ہٹادو۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی بھی نہیں مٹاسکتا۔ ( یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے ( حضرت علی کے ہاتھ سے وہ صلح نامہ) لے لیا اور باوجود یکہ آپ ﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ( رسول اللہ کا لفظ مٹا کر) یہ لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ابن عبداللہ نے مصالحت کی ہے ( اور اس معاہدہ میں یہ شرطیں تھیں) کہ وہ ( آنحضرت ﷺ اور صحابہ) مکہ میں ہتھیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے الاّ یہ کہ ان کی تلواریں نیاموں میں ہوں اور یہ کہ اگر اہل مکہ میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کرے تو اس کو مکہ سے جانے نہیں دیا جائے گا ( یعنی جب آپ ﷺ مکہ میں آئیں اور پھر واپس جانے لگیں تو اہل مکہ میں سے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے کر نہ جائیں) اور یہ کہ اگر آپ ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی شخص مکہ میں ٹھہر جانے کا ارادہ کرے تو آپ ﷺ اس کو ( مکہ میں ٹھہرنے سے) منع نہیں کریں گے۔ چناچہ جب ( اگلے سال) آنحضرت ﷺ مکہ میں تشریف لائے اور (مکّہ میں ٹھہر نے کی تین دن کی) وہ مدت ( جو معاہدہ صلح میں طے پائی تھی) گذر گئی ( یعنی تین دن پورے ہونے کو ہوئے) تو اہل مکہ حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ تم اپنے سردار ( یعنی آنحضرت ﷺ سے کہو کہ ( طے شدہ) مدت پوری ہوگئی ہے اب ہمارے شہر سے چلے جاؤ۔ چناچہ نبی کریم ﷺ مکہ سے روانہ ہوگئے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے لفظ کو مٹانے سے جو انکار کیا گویا وہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم بطریق وجوب نہیں ہے ورنہ وہ ہرگز انکار نہ کرتے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ انکار نہیں تھا بلکہ عین اتباع کے درجہ کی چیز تھی کیونکہ اس انکار کی بنیاد آنحضرت ﷺ کے تئیں وہ غایت محبت اور انتہائی عقیدت تھی جو حضرت علی کرام اللہ وجہہ کی واحد سرمایہ روح و جان بھی تھی اور ان کی کائنات تسلیم و رضاء بھی، آخر وہ کس دل سے یہ گوارہ کرسکتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس سب سے بڑی حقیقت کو مٹا دیں جس کو صفحہ قرطاس پر انہیں کے قلم نے الفاظ کی صورت میں مرتسم کیا تھا اور جس کی ابدی سچائی کو دنیا بھر کے قلب و ذہن میں راسخ کرنا ہی انکا حاصل ایمان بھی تھا اور مقصد حیات بھی۔ یہ بات علماء کے درمیان اختلافی نوعیت کی ہے کہ اس صلح نامہ کو آنحضرت ﷺ نے خود لکھا تھا جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ اکثر حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ صلح نامہ آنحضرت ﷺ نے خود قطعاً نہیں لکھا تھا اور نہ آپ ﷺ لکھ ہی سکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو امی فرمایا ہے اور امی وہی شخص ہوتا ہے جو نہ لکھ سکے اور نہ پڑھ سکے۔ جب کہ دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا اس صلح نامہ کو لکھنا ایک حقیقت ہے کیونکہ اگرچہ آپ کو نبی امی فرمایا گیا ہے لیکن جب آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک شبہات ختم ہوگئے اور آپ ﷺ کے رسول اللہ ہونے کے دلائل روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنے پر قادر کردیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت آپ ﷺ کا لکھنا بطریق معجزہ کے تھا۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم ان حضرات کی دلیل ہے۔ لیکن اوّل الذکر حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے لکھا سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی کرام اللہ وجہہ کو لکھنے کا حکم دیا اور یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شہر کو تعمیر کیا۔ ظاہر ہے اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے شہر کو تعمیر کیا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ نے اس شہر کو تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
Top