مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4409
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله . رواه مسلم .
دوا صرف ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی شفا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے، لہٰذا جب وہ بیماری کے موافق ہوجاتی ہے تو بیمار اللہ کے حکم یعنی اس کی مشیت و ارادہ سے اچھا ہوجاتی ہے۔ (مسلم)

تشریح
اللہ کے حکم کی قید اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ یہ گمان نہ کیا جائے کہ مرض سے شفایابی کا اصل میں تعلق دوا سے ہے اور مریض کو صحت بخشنے میں علاج و معالجہ حقیقی اور مستقل بالذات مؤثر ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں شفا یابی تو محض اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، دوا اور علاج و معالجہ محض ایک ظاہری ذریعہ اور وسیلہ ہے، کسی بھی مرض پر کوئی دوا اسی وقت اثر انداز ہوتی ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، چناچہ روایت حمیدی میں اس کی تفصیل یوں منقول ہے کہ ایسا کوئی بھی مرض نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو چناچہ جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جس کے ساتھ ایک پردہ ہوتا ہے وہ فرشتہ اس پردہ کو بیمار کے مرض اور دوا کے درمیان حائل کردیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار جو بھی دوا استعمال کرتا ہے وہ مرض کو نہیں لگتی اور شفا حاصل نہیں ہوتی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہوتی ہے کہ بیمار اچھا ہوجائے تو وہ فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ مرض اور دوا کے درمیان سے پردہ اٹھا دیا جائے اس کے بعد بیمار جب دوا پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دوا کے ذریعہ اس کو شفا دیدیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مرض لاحق ہوجائے تو اس کا علاج کرنا اور دوا مستحب ہے، چناچہ صحابہ کرام اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ نیز اس سے ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو علاج معالجہ اور دواء کی افادیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر چیز کی طرح مرض بھی قضا و قدر کے زیر اثر ہے اس لئے کسی بیمار کا علاج کرنا لاحاصل ہے۔ جمہور علماء جو علاج و معالجہ کے قائل ہیں کی دلیل مذکورہ احادیث ہیں اور انکا اعتقاد یہ ہے کہ بیشک امراض کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لیکن امراض کے ازالہ کے ذرئع پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جس طرح مرض و بیماری قضا و قدر کے تابع ہے اسی طرح علاج و معالجہ کرنا بھی تقدیر الہٰی ہی سے ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ہر انسان کی موت کا وقت بالکل اٹل ہے جس کی موت جس صورت میں لکھی جا چکی ہے اسی صورت میں آ کر رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود اپنی حفاظت و سلامتی کے ذرئع اختیار کرنا اور اپنی جان کو کسی حادثہ یا دشمن کے حملہ سے محفوظ رہنے کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا میدان جنگ میں دشمنان دین کو قتل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حاصل یہ کہ جان و صحت کی حفاظت و سلامتی کے لئے دوا وغیرہ جیسے اسباب ذرائع اختیار کرنا نہ تو حکم الٰہی کے خلاف ہے اور نہ توکل کے منافع ہے جیسا کہ کھانے کے ذریعہ بھوک کو دفع کرنا توکل کے منافع نہیں ہے چناچہ رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر توکل کرنے والا کون انسان ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ سید المتوکلین تھے، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ علاج بھی کرتے تھے اور بیماری کو دور کرنے کے ذرائع اختیار فرماتے تھے۔
Top