مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4410
وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفاء في ثلاث في شرطة محجم أو شربة عسل أو كية بنار وأنا أنهى أمتي عن الكي . رواه البخاري .
تین چیزوں میں شفا ہے
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری)

تشریح
محجم میم کے زیر اور جیم کے زبر کے ساتھ سینگی کو کہتے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے مراد نشتر یا استرا ہے جس سے پچھنے دیئے جاتے ہیں۔ شرطۃ شین کے زبر کے ساتھ، پھچنے لگاؤ کے لئے کو پچھنے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ رگ سے خون نکالا جاتا ہے لہذا فی شرطۃ معجم کا ترجمہ یہ ہوگا کہ نشتر یا استرے کے ذریعہ پچھنے لگانے میں (شفا ہے) سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی ( جسمانی) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی چناچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے آپ ﷺ نے شہد کے ذریعہ اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے نیز آگ سے داغنے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عجز ہوجائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہوجاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اخر الدوال کی یعنی آخری دوا داغنا ہے۔ رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ ﷺ نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہوگیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے۔ چناچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ اخر الدوال کی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جاسکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے لہٰذا آپ ﷺ نے اس فاسد عقیدے کی تردید اور لوگوں کو شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی اور یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے ورنہ اگر کوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطور علاج اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے جائز ہے، بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت کا تعلق خطرہ اور تردد کی صورت سے ہے یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے سے فائد ہے کے جزم کی بجائے نقصان اور ہلاکت جان کا خوف اور خطرہ ہو تو پھر داغنا نہ چاہئے۔ اس مسئلہ میں بعض شارحین حدیث نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ داغنے کے سلسلہ میں مختلف احادیث منقول ہیں بعض احادیث تو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور بعض نہی کو ثابت کرتی ہیں جیسے مذکورہ بالا احادیث اور دوسری احادیث اسی طرح بعض احادیث میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں داغنے کو پسند نہیں کرتا اور بعض احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف کی گئی ہے اس طرح ان احادیث کے باہمی تعارض و تضاد کو دور کرنے اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے یہ لکھا ہے کہ جن احادیث سے آپ ﷺ کا یہ فعل منقول ہے کہ آپ ﷺ نے داغا تو یہ اصولی طور پر داغنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے اور جن احادیث سے آپ ﷺ کی عدم پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس جواز کے منافی نہیں ہے کیونکہ عدم پسندیدگی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا چناچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ ﷺ تو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن دوسروں کے لئے اس کی ممانعت بھی نہیں فرماتے تھے، اسی طرح جن احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف منقول ہے وہ بھی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ مدح و تعریف کا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ داغنے کو اختیار نہ کرنا محض اولی اور افضل ہے نہ کہ ضروری ہے البتہ جن احادیث میں داغنے کی ممانعت صراحت کے ساتھ منقول ہے تو وہ ممانعت دراصل اس صورت پر محمول ہے جب کہ داغنے کو اختیار کرنا یا تو سبب مرض کے بغیر ہو یا مرض کے دفعیہ کے لئے اس کی واقعی حاجت نہ ہو بلکہ وہ مرض دوسرے علاج معالجہ سے دفع ہوسکتا ہے، نیز جیسا کہ او پر بیان کیا گیا ہے یہ ممانعت اس بات پر بھی محمول ہے کہ یہ ممانعت داغنے دراصل داغنے کے بارے میں مذکورہ بالا فاسد عقیدے اور شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ہے اور اگر اس طرح کا فاسد عقیدہ نہ رکھا جائے تو یہ ممانعت نہیں ہوگی بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا بعض صحابہ کے بارے میں داغنے کا حکم دینا (جیسا کہ آگے آ رہا ہے) اس بنا پر تھا کہ ان صحابہ کے زخم بہت خراب ہوگئے تھے اور بعض عضو کے کٹ جانے کی وجہ سے اخراج خون میں کمی نہیں ہو رہی تھی، نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ داغنے کے صحت یقینی ہے حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے اور طبیب خاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہوگا۔
Top