مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4469
سحر کے احکام
اس باب میں منتر و افسوں اور جھاڑ پھونک وغیرہ کے متعلق احکام و مسائل بیان ہوئے ہیں اب جب کہ باب ختم ہو رہا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مناسبت سے سحر و جادو کے احکام و اقسام کے سلسلے میں کچھ تفصیل بیان کردی جائے اس مقصد کے لئے خاص طور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے منقولات کو منتخب کیا گیا ہے جو انہوں نے آیت کریمہ (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ ) 2۔ البقرۃ 102) کے تحت سحر کے اقسام و احکام کی وضاحت میں بیان کئے ہیں ان معقولات و فرمودات کا ترجمہ و خلاصہ اور اس کی روشنی میں چند دوسری باتیں نقل کی جاتی ہیں۔ جاننا چاہئے کہ سحر کے حکم کی مختلف صورتیں ہیں اگر سحر کرنے والے نے کوئی ایسا قول و فعل اختیار کیا جو کفر کا موجب ہو جیسے بتوں، دیوی، دیوتاؤں اور ارواح خبیثہ کا نام ایسی تعظیم وصفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہو جو صرف رب العزت ہی کے شایان شان ہے مثلا ان بتوں وغیرہ کے لئے عموم علم، قدرت و تصرف اور غیب دانی و مشکل کشائی وغیرہ ثابت کی گئی ہو، یا غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا ہو، غیر اللہ کے لئے سجدہ کیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسا سحر بلا شبہ کفر ہوگا اور اس سحر کو کرنے والا مرتد قرار پائے گا اسی طرح جس شخص نے اپنے کسی مطلب کے حصول کے لئے اس طرح کا سحر دیدہ دانتسہ کرایا ہوگا تو وہ بھی کافر ہوجائے گا اور اس پر ارتداد کے احکام نافذ ہوں گے، اگر وہ مرد ہے تو پہلے اس کو تین دن کی مہلت دینی چاہئے اگر تین دن کے بعد اس نے صحیح توبہ نہ کی تو اس کو مار ڈالا جائے اور اس کی لاش کو پھینک دیا جائے نہ مسلمان میت کی طرح اس کی تجہیز وتکفین کی جائے نہ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ فاتحہ و درود و صدقات کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے اور اگر وہ عورت ہے تو حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق اس کو بھی مردوں کی طرح تین دن کی مہلت کے بعد قتل کردیا جائے اور جب کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک عورت کو ہمیشہ کے لئے قید میں ڈال دیا جائے جب تک کہ وہ توبہ نصوح نہ کرے۔ اور اگر سحر میں کوئی ایسا قول وفعل نہ ہو ارتداد و کفر کا موجب ہوتا ہے، لیکن سحر کرنے والا اس بات کا دعوی کرے کہ میں اپنے اس جادو کے زور سے وہ کام کرسکتا ہوں جو اللہ کرتا ہے۔ مثلا میں انسان کو جانور کی صورت میں تبدیل کرسکتا ہوں یا لکڑی کو پتھر اور پتھر کو لکڑی بنا سکتا ہوں یا ایسے کام کرسکتا ہوں جو پیغمبر کرسکتے ہیں اور ان معجزات کی طرح میں بھی معجزہ دکھا سکتا ہوں مثلاً میں ہوا میں اڑ سکتا ہوں یا ایک مہینے کی مسافت ایک لمحے میں طے کرسکتا ہوں تو اس کو بھی اس دعوے کی وجہ سے مرتد و کافر قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ نفس سحر کے سبب۔ اگر وہ یوں کہے کہ میرے عملیات میں ایک خاصیت ہے اور وہ یہ کہ میں اپنے عمل جادو کے ذریعہ کسی جاندار کو جان سے مار سکتا ہوں، یا کسی تندرست کو بیمار اور بیمار کو تندرست کرسکتا ہوں یا میں لوگوں کے خیالات تک کو اچھا یا برا بنا سکتا ہوں تو اس کا یہ سحر جھوٹ بولنے اور فسق اختیار کرنے کے حکم میں ہوگا اور وہ (سحر کرنے والا) فاسق و کا ذب قرار پائے گا اور وہ اپنے اس عمل (سحر) کے ذریعہ کسی بےگناہ کو ہلاک کر ڈالے تو اس کو قزاق اور قاتل کی طرح سزائے موت دے کر مار ڈالا جائے کیونکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ فتنہ و فساد پھیلانے اور بےگناہوں کو ہلاکت میں ڈالنے کا مجرم قرار پائے گا۔ اس بارے میں ساحر اور ساحرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے یہ منقول ہے کہ جس شخض کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ سحر کرتا ہے اور اقرار و تنبیہ کے ذریعہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کو مار ڈالنا چاہئے اس سے توبہ کا مطالبہ کرنے یا مہلت دینے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ کہے کہ میں سحر کو ترک کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تو اس کی بات کو قبول نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر وہ یوں کہے کہ میں پہلے تو بیشک سحر کرتا تھا مگر ایک مدت سے اپنے فعل سے باز آگیا ہوں تو اس کے اس قول کو قبول کرلیا جائے اور اس کو معاف کردیا جائے۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سحر کیا اور اس کے سحر کی وجہ سے سحر زدہ مرگیا تو ساحر سے جواب طلب کرنا چاہئے اگر وہ اقرار کرے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر اکثر اوقات جان لے لیتا ہے تو اس پر قصاص واجب ہوگا اور اگر یہ کہے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر کبھی جان لے لیتا ہے اور کبھی جان نہیں لیتا ہے تو یہ قتل عمد کے حکم میں ہوگا اور اس پر شبہ عمد کے احکام نافذ ہوں گے اور اگر وہ یوں کہے کہ سحر تو میں نے کسی دوسرے شخص کے لئے سحر کیا گیا تھا اور اس وجہ سے اس کا اثر اس شخص پر ہوگیا اور یہ ہلاک ہوگیا تو یہ قتل خطاء کے حکم میں ہوگا اور اس ( ساحر) پر قتل خطاء کے احکام نافذ ہوں گے اس موقع پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے جو اکثر ذہنوں میں خلجان پیدا کرسکتا ہے اور وہ یہ کر خرق عادت افعال کہ جو محض قدرت الٰہی سے صادر ہوتے ہیں اکثر اولیاء اللہ کے ذریعہ ظہور میں آتے ہیں جیسے تقلیب اعیان یا تبدیلی صورت یا اسی طرح کے وہ افعال جو پیغبروں کے معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں جیسے مردہ کو زندہ کردینا یا دور دراز کے سفر کو ایک لمحہ میں طے کرلینا علاوہ ازیں اولیاء اللہ سے اسی طرح کی اور بہت سی چیزوں کا صادر ہونا ثابت جن کو ان اولیاء اللہ کے مستند سوائح نگاروں نے ان کے مناقب و کرامت کے ضمن میں لکھا ہے۔ لہٰذا اگر افعال الہٰی کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے تو ان اولیاء اللہ سے صادر ہونے والے خرق عادت افعال کی صورت میں بھی کفر لازم آنا چاہئے اور اگر یہ کہا جائے کہ اولیاء اللہ سے جو خرق عادت فعل ہونے کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ان پر کفر کا اطلاق نہیں ہوتا تو پھر ساحروں کے حق میں کفر کا حکم کیوں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی ان افعال کے صادر ہونے کا ظاہری سبب و ذریعہ ہی تو ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی فاعل بلکہ علاوہ ازیں دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین کہ جو اپنے کہ جو اپنے عملیات اور دعاؤں کے ذریعہ ساحروں کی طرح کتنے ہی محیر العقول کارنامہ انجام دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی گویا پوری طرح ساحروں کے مشابہ ہوتے ہیں تو ان کے افعال پر بھی کفر کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا اور ان کے اور ساحروں کے درمیان فرق کیوں کیا جاتا ہے؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ خرق عادت افعال خواہ وہ معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں اور خواہ کسی اور طرح کے ہوں سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی ارادہ و حکم سے اور اسی کے پیدا کرنے سے صادر و ظاہر ہوتے ہیں اس اعتبار سے اولیاء اللہ سے جو چیزیں (کرامت کی صورت میں) صادر ہوتی ہیں وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ سے ظہور میں آتی ہیں اور جو چیزیں ساحروں سے صادر ہوتی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ ہی سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے اور جس فرق کی وجہ سے کفر اور عدم کفر کا حکم لگتا ہے وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ یا دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین ان افعال کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت یا اس کے اسماء پاک کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے ان پر کفر و شرک کا اطلاق نہیں ہوتا، جب کہ ساحر ان افعال کو غیر اللہ، یعنی ارواح خبیثہ، دیوی دیوتاؤں، بتوں کے نام اور منتروں کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے وہ ان افعال کو اپنے قبضہ و قابو اور اپنے زیر حکم جانتے ہیں اور ان افعال کے عوض اجرت لیتے ہیں، بھینٹ چاہتے ہیں، ان دیوی دیوتاؤں اور بتوں کے نام پر نذر کرنے اور قربانی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے یہ چیزیں شرک و کفر لازم کرتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی کو بچہ عطا ہونا، رزق میں وسعت وفراخی ملنا اور مریض کا شفایاب ہونا وغیرہ امور اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں اور اسی کے حکم و ارادہ کے تحت ہیں لیکن گمراہ لوگ ان کی نسبت ارواح خبیثہ، دیوی، دیوتاؤں اور پیروں فقیروں وغیرہ کی طرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں دیوی دیوتا سے بچہ مانگا تھا تو اس نے ہمیں بچہ دیا ہم نے فلاں کی روح کے نام پر بھینٹ چڑھائی تھی تو اس نے ہمیں رزق میں وسعت دی اور ہم نے فلاں بزرگ و فقیر سے درخواست کی تھی اور اس مقصد کے لئے ان کے مزار پر نذرانے چڑھائے تھے تو انہوں نے ہمیں شفا دی۔ گویا ان کے نزدیک ان چیزوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ غیر اللہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگ کافر ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف اللہ کو ماننے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے لوگ اگر ان چیزوں کے لئے جائز ذرائع و اسباب، جیسے دعا، تعویذ، جھاڑ پھونک یا علاج معالجہ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوتی ہے تو ان امور کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں جو چیز ملی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملی ہے البتہ اس کے حصول میں اسماء الہٰی دعاؤں اور تعویذ گنڈے کی تاثیر یا دوا کے خواص ایک ظاہری سبب و ذریعہ کا درجہ رکھتے ہیں اس بناء پر ان کے ایمان میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔
Top