مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4474
عن أبي هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا طيرة وخيرها الفأل قالوا وما الفأل ؟ قال الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم .
بدشگونی لینا منع ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ۔ بد شگونی بےحقیقت ہے اس سے بہتر تو اچھی فال ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اور فال کیا چیز ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اچھا کلمہ جس کو تم میں سے کوئی شخص سنے اور اس سے اپنی مراد پانے کی توقع پیدا کرے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
بدشگونی بےحقیقت ہے کا مطلب یہ ہے کہ حصول منفعت یا دفع مضرت میں بدفالی لینے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ شریعت نے اس کو سبب اعتبار قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اعتقاد و اعتبار نہ کرنا چاہئے۔ چونکہ ہوگا وہی جو قادر مطلق (اللہ تعالیٰ ) کی مرضی ہوگی اس لئے بد فالی لے کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ خوف و اندیشہ اور نامیدی میں کیوں مبتلا کیا جائے۔ طیرہ یعنی بد فالی کی نفی کرنے اور اس کی ممانعت کو ظاہر کرنے کے بعد آپ ﷺ نے فال کی تعریف کی اور یہ فرمایا کہ طیرہ کی بہترین صورت اچھی فال ہے۔ گویا حدیث میں طیرہ مطلق فال لینے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ حدیث کی عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھی فال لینا بہتر ہے۔ اور بدفالی لینا بھی کسی نہ کسی درجہ میں اچھی چیز ہے حالانکہ حقیقت میں بدفالی اچھی چیز نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس عبارت میں لفظ خیر اصل میں بہ کے مفہوم میں ہے نہ کہ بہتر کے معنی میں جیسا کہ یہ جملہ ہے۔ آیت (والاخرۃ خیر وابقی)۔ واصحاب الجنۃ خیر۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ ارشاد گرامی ﷺ دراصل اہل عرب کے گمان و اعتقاد پر مبنی ہے کہ وہ بدفالی کو بھی پسندیدہ چیز سمجھتے تھے یا یہ کہ اس عبارت کی بنیاد یہ ہے کہ اگر طیرہ کا اچھا ہونا بالفرض ممکن بھی ہوتا تو فال اس سے بہتر چیز ہوتی۔ وہ اچھا کلمہ۔۔۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی ایسا جملہ سنائی دے جس سے اس کے دل میں اپنے مطلوب و مقصود کے حاصل ہوجانے کی امید پیدا ہوجائے اور وہ اس لفظ یا جملے کو اپنے حق میں گویا اچھی پیشگوئی سمجھے جیسے کوئی شخص اپنی کسی گمشدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو کہ وہ یہ آواز سنے یا واجد یا کوئی شخص راستہ بھول گیا ہو اور اس کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا ہو کہ اس کے کان میں کسی طرف سے یہ آواز آئے۔ یا راشدا۔
Top