مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4477
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا هامة ولا نوء ولا صفر . رواه مسلم .
کسی بیماری کا متعدی ہونا بے حقیقت بات ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے کو بیماری لگنا ہامہ نوء اور صفر کی حقیقت نہیں ہے ( مسلم)

تشریح
نوء کا مطلب ہے کہ ایک ستارہ کا غروب ہونا اور دوسرے کا طلوع ہونا اہل عرب کے خیال میں بارش کا ہونا یا نہ ہونا ستاروں کے اسی طلوع و غروب کے زیر اثر ہے جیسا کہ علم نجوم پر اعتقاد رکھنے والے لوگ کہا کرتے ہیں کہ بارش کا تعلق پخھتروں سے ہے کہ فلاں فلاں پنھتر اگر فلاں فلاں تاریخ میں پڑجائیں اور ان تاریخیوں میں بارش ہوجائے تو آگے چل کر برسات کے مہینوں میں فلاں فلاں تاریخوں میں بارش ہوگی نہل میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر کے ہیں منازل یعنی نچھتروں کے ہیں اور وہ منازل اٹھائیس ہیں قرآن کریم کی آیت کریمہ (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ ) 36۔ یس 39) میں ان ہی منازل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چناچہ اہل عرب نزول باراں کو انہی منازل کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب چاند ان سے فلاں فلاں منازل میں آتا ہے تو بارش یقینا ہوتی ہے گویا ان کے نزدیک چاند کا ان منازل میں آنا بارش ہونے کی علت اور مؤثر حقیقی کا درجہ رکھتا ہے۔ چناچہ شارع (علیہ السلام) نے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ بارش کا ہونا محض حکم الہٰی پر منحصر ہے نہ کہ کسی سبب اور علت سے متعلق ہے لیکن واضح رہے کہ اس نفی و ابطال کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ تاثیر علت کا اعتقاد ہو ہاں منازل میں چاند کے آنے کو نزول باراں کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے۔ یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔ اگرچہ امام نووی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی کفر کا سبب ہے کیونکہ نزول باراں کو چاند اور اس کے منازل سے کسی بھی طرح متعلق کرنا اول تو اہل کفر کا شعار ہے دوسرے مذکورہ صورت (اگرچہ علیت کے عقیدہ کو ظاہر نہیں کرتی مگر موہم علیت تو یقینا ہے، اس بارے میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ حدیث مذکورہ ممانعت مطلق (بلا استثناء) ہے کہ اس کا تعلق علیت کے عقیدے سے بھی ہے اور اس صورت سے بھی ہے جس میں چاند اور اس کی منازل کو محض ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، کیونکہ اول تو اس ارشاد کا مقصود عقیدے کی گمراہی و فساد کا سد باب ہے دوسری ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے اس کا جواز کسی بھی صورت میں ثابت ہو۔ حاصل یہ کہ جب بارش ہو، اس طرح نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بارش ہوئی ہے۔
Top