مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4479
وعن عمرو بن الشريد عن أبيه قال كان في وفد ثقيف رجل مجذوم فأرسل إليه النبي صلى الله عليه وسلم إنا قد بايعناك فارجع . رواه مسلم .
جذامی کا ذکر
اور حضرت عمرو بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں کا جو وفد (دربار رسالت میں) آیا تھا اس میں ایک جذامی تھا ( جب اس نے بیعت کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا) تو نبی کریم ﷺ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیج کر کہلا دیا کہ ہم نے (تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بغیر) تم سے (زبانی) بیعت لے لی ہے تم لوٹ جاؤ (گویا آپ ﷺ نے اس کو سامنے نہیں بلایا تاکہ حاضرین مجلس کو کراہت محسوس نہ ہو) (مسلم )۔

تشریح
جذامی سے ملنے جلنے میں اجتناب و احتراز کے بارے میں ایک تو یہ حدیث ہے، دوسری حدیث وہ ہے جو پیچھے گزری ہے اور جس میں فرمایا گیا کہ جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ان دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و مجالست سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جب کہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں، حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض ادہام و وساوس کا سد باب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔ اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ بیٹھا اٹھا اور اس کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعید نہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہوجائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل و اعتقاد علی اللہ کے مرتبہ اعلی پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم و گمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا، چناچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا۔ کرمانی نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ بیماری کے چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو جذام کی بیماری اس سے مستثنیٰ ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ جذام میں ایک خاص قسم کی بدبو ہوتی ہے اگر کوئی شخص کسی جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اور ہم خوری وہم بستری میں زیادتی اختیار کرے تو وہ بو اس کو متاثر کرتی ہے اور بیمار کردیتی ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص ایسا کھانا کھالے یا ایسی بو میں پھنس جائے جو اس کے مزاج و طبیعت کے موافق نہ ہو یا اس کا مضر ہونا ظاہر ہو تو اس شخص سے متاثر ہوتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اگرچہ یہ چیزیں محض ایک ظاہری ذریعہ وسبب بنتی ہے حقیقت میں وہ بیماری اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے لاحق ہوتی ہے اس اعتبار سے جذامی سے پرہیز طبی نقطہ نظر اور حصول حفظان صحت کی رو سے ہوگا نہ کہ اس کو چھوت سمجھنے کی وجہ سے۔
Top