مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 192
علم اور اس کی فضیلیت کا بیان
علم کیا ہے؟ یہ وہ عظیم وصف ہے جو انسان کو نہ صرف یہ کہ شرافت و تہذیب کا سرمایہ بخشتا ہے عزّت و عظمت کی دولت سے نوازتا ہے، اخلاق و عادات میں جلا پیدا کرتا ہے اور انسانیت کو انتہائی بلندیوں پر پہنچاتا ہے، بلکہ قلب انسانی کو عرفان الہٰی کی مقدّس روشنی سے منوّر کرتا ہے، ذہن و فکر کو صحیح عقیدے کی معراج بخشتا ہے اور دل و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت گزاری کی راہ مستقیم پر لگاتا ہے۔ اسلام! جو انسان کے لئے ترقی و عظمت کی راہ میں سب سے عظیم مینارۂ نور ہے، وہ اس عظیم و صف کو انسانی برادری کے لئے ضروری قرار دیتا ہے اور اس کے حصول کو دینی و دنیوی ترقی و کامیابی کا زینہ بناتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اسلام ہر اس علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو اسلامی عقیدہ و عمل سے مزاحم ہوئے بغیر انسانی معراج کا ضامن ہو، اسلام کسی بھی علم کے حصول کو منع نہیں کرتا۔ لیکن ایسے علم سے وہ بیزاری کا اظہار بھی کرتا ہے جو ذہن و فکر کو گمراہی کی طرف موڑ دے یا انسان کو اللہ کے رسول سے نا آشنا رکھ کر دہریت کے راستہ پر لگا دے۔ یہاں ( کتاب العلم) کا عنوان قائم کر کے جس علم کی ضرورت و فضیلت پر مشتمل، احادیث بیان کی جارہی ہیں وہ علم دین ہے جو شریعت کی نظر میں بنیادی اور ضروری حیثیت رکھتا ہے۔ دینی علم دوسرے علوم کے مقابلے میں اسلام کی نظر میں سے سب مقدّم اور ضروری ہے جس کا حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد منقول ہے۔ الحدیث (طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلَّ مُسْلِمٍ )۔ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام جس زندگی کا تقاضا کرتا ہے اور انسان کو عبودیت کی معراج پر دیکھنا چاہتا ہے وہ علم دین ہی پر موقوف ہے علم دین کی بناء پر انسان، انسان بنتا ہے اور بندہ اپنی حقیقت کو پہچان کر ذات حق کا عرفان حاصل کرتا ہے، نیز عقیدہ و عمل کی تمام راہیں اسی سے نکلتی ہیں جس پر چل کر بندہ اپنے پروردگار کا حقیقی اطاعت گزار، رسول کا فرماں بردار اور دین و شریعت کا پابند بنتا ہے۔ (علم دین) جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر مشتمل ہے۔ اس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں۔ اول (مبادی) یعنی وسائل، دوم (مقاصد) مبادی۔ اس علم کو کہتے ہیں جس کے حصول پر کتاب و سنت کی معرفت موقوف ہے، یعنی جب تک یہ علم حاصل نہ کیا جائے قرآن و حدیث کے علوم و معارف کا عرفان حاصل نہیں ہوسکتا مثلاً لغت، صرف و نحو وغیرہ کے علوم کہ جب تک ان کو حاصل نہ کیا جائے اور ان پر نظر نہ ہو کتاب و سنت کا علم صحیح طور پر نہیں آسکتا اور نہ ان کے حقیقی منشا، و مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مقاصد۔ وہ علم ہے جو عقائد، اعمال اور اخلاق سے متعلق ہے۔ یعنی یہی وہ علم ہے جو مقصود بالذات اور فی نفسہ ضروری ہے اور اسی کو حاصل کر کے دین و شریعت کی پابندی کا سیدھا راستہ سامنے آتا ہے۔ ان سب کو علم معاملات بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک علم مکاشفہ بھی ہوتا ہے۔ یہ دراصل وہ نور ہوتا ہے جو علم پر عمل کرنے سے قلب میں پیدا ہوتا ہے جس کی مقدّس روشنی سے ہر چیز کی حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے اور حق تعالیٰ کی ذات وصفات اور احوال کی معرفت پیدا ہوتی ہے اس علم مکاشفہ کو علم حقیقت اور علم وراثت میں کہتے ہیں جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ الحدیث (مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ ا مَالَمْ یُعْلَمْ )۔ جو آدمی علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس چیز کا علم نصیب کرتا ہے جو نہ جانا جاتا ہے اور نہ پڑھا جاتا ہے۔ بہر حال، علم ظاہر و علم باطن کی جو اقسام مشہور ہیں وہ یہی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں میں بدن و روح اور پوست و مغز کی نسبت ہے۔ نیز علم کی فضیلت میں جو آیتیں وارد ہیں، یا احادیث منقول ہیں وہ ان تمام اقسام کو مراتب درجات کے تفاوت کے ساتھ شامل ہیں۔
Top