مشکوٰۃ المصابیح - عیدین کا بیان - حدیث نمبر 1399
عَنْ اَبِیْ سَعِےْدِ نِ الْخُدْرِیِّص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَخْرُجُ ےَوْمَ الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی اِلَی الْمُصَلّٰی فَاَوَّلُ شَیْءٍ ےَبْدَاُ بِہِ اَلصَّلٰوۃُ ثُمَّ ےَنْصَرِفُ فَےَقُوْمُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوْسٌ عَلٰی صُفُوْفِھِمْ فَےَعِظُھُمْ وَےُوْصِےْھِمْ وَےَاْمُرُھُمْ وَاِنْ کَانَ ےُرِےْدُ اَنْ ےَّقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَہُ اَوْ ےَاْمُرُ بِشَیْءٍ اَمَرَ بِہٖ ثُمَّ ےَنْصَرِفُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
عیدین کی نماز
حضرت ابوسعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ( جب) عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز کے لئے تشریف لاتے تو وہاں سب سے پہلا یہ کام فرماتے کہ خطبے سے پہلے نماز ادا فرماتے، پھر نماز سے فارغ ہوتے اور لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور لوگ اپنی صفوں پر بیٹھتے رہتے چناچہ آپ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے، وصیت کرتے اور احکام صادر فرماتے، اگر (جہاد کے لئے) کہیں کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کی روانگی کا حکم فرماتے اس طرح اگر (لوگوں کے معاملات و مقدمات کے بارے میں کوئی حکم دینا ہوتا تو حکم صادر فرماتے پھر (گھر) واپس تشریف لے آتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مدینہ منورہ کی عیدگاہ شہر سے باہر ہے، جس کا فاصلہ کہتے ہیں کہ حجرہ شریف سے ایک ہزار قدم ہے وہ جگہ انتہائی متبرک اور مقدس ہے اب اس کے اردگرد چار دیواری بنادی گئی ہے۔ بہر حال شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ امام وقت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عیدین کی نماز کے لئے عید گاہ جائے۔ ہاں اگر کوئی عذر مانع ہو تو پھر شہر کی مسجد ہی میں نماز پڑھائے ابن ہمام فرماتے ہیں کہ امام وقت کے لئے مسنون ہے کہ وہ خود تو عید کی نماز کے لئے عید گاہ جائے اور کسی ایسے آدمی کو اپنا قائم بنا دے جو شہر میں ضعیفوں کو نماز پڑھائے لیکن حضرت علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ عید گاہ جانے کا مسئلہ مسجد حرام اور بیت المقدس کے علاوہ دوسری جگہوں کے لئے ہے کیونکہ نہ صرف ان دونوں مقدس مسجدوں کی عظمت و تقدس کے پیش نظر بلکہ صحابہ اور تابعین کی اتباع میں بھی مسجدوں میں تمام نمازیں پڑھنی افضل ہیں۔ فیقوم کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز سے فراغت کے بعد خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے لوگوں کے سامنے زمین پر کھڑے ہوتے تھے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عید گاہ میں منبر نہیں تھا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو عید گاہ میں منبر کا انتظام کیا گیا اس لے کہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھے گئے خطبے کی آواز دور دور تک پہنچتی ہے۔ نصیحت کرتے یعنی مسلمانوں کو آپ اس موقع پر دنیا سے زہد اختیار کرنے اور آخرت کے طرف دھیان رکھنے کی نصیحت فرماتے، نیز آپ ﷺ لوگوں کے سامنے ثواب کی عظمت و فضائل بیان کرتے اور گناہوں سے ڈراتے تاکہ لوگ اس دن کی خوشیوں اور مسرتوں میں مشغول ہو کر اطاعت سے غافل اور گناہوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جیسا کہ آجکل لوگوں کا حال ہے۔ اور وصیت کرتے یعنی لوگوں کو تقوی یعنی پرہیز گاری اختیار کرنے کی وصیت فرماتے۔ تقوی کے تین درجے ہیں۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شرک سے بچا جائے۔ وسط درجہ یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور ممنوع چیزوں سے بچا جائے۔ اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ وقت حضور قلوب کے ساتھ متوجہ اور ماسوا اللہ سے بےغرض رہا جائے۔ احکام صادر فرماتے یعنی لوگوں کے معاملات کے بارے میں جو احکام دینے ہوتے تھے وہ صادر فرماتے نیز عید الفطر میں فطرہ کے احکام اور عیدالاضحی میں قربانی کے احکام بیان فرماتے۔
Top