مشکوٰۃ المصابیح - فئی تقسیم کر نے سے متعلق - حدیث نمبر 3957
عن مالك بن أوس بن الحدثان قال : قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن الله قد خص رسوله صلى الله عليه و سلم في هذا الفيء بشيء لم عطه أحدا غيره ثم قرأ ( ما أفاء الله على رسوله منهم ) إلى قوله ( قدير ) فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه و سلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال . ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله (2/422) 4056 - [ 2 ] ( متفق عليه ) وعن عمر قال : كانت أموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله صلى الله عليه و سلم خالصة ينفق على أهله نفقة سنتهم ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله
مال فئی کا مصرف
حضرت مالک ابن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے سلسلے میں اپنے رسول ﷺ کو ایک خاص خصوصیت عطاء کی تھی کہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور کو وہ خصوصیت عطاء نہیں کی۔ پھر حضرت عمر ؓ نے یہ آیت ( وَمَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْهُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّ طُ رُسُلَه عَلٰي مَنْ يَّشَا ءُ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59۔ الحشر 6) پڑھی اور فرمایا کہ چناچہ یہ مال صرف رسول کریم ﷺ کے لئے مخصوص ہوگیا تھا، جس میں سے آنحضرت ﷺ اپنے گھر والوں کو سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اس کے بعد اس میں سے جو کچھ بچ رہتا تھا اس کو ان جگہوں میں خرچ کرتے جو اللہ کا مال خرچ کئے جانے کی جگہیں ہیں ( یعنی اس باقی مال کو مسلمانوں کے مفاد و مصالح جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری پر خرچ کردیا کرتے تھے، نیز محتاج و مساکین میں سے جس کو چاہتے اس کی مدد کرتے تھے۔ ( بخاری و مسلم)

تشریح
مذکورہ آیت کریمہ سورت حشر کی ہے جو پوری اس طرح ہے۔ آیت ( وَمَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْهُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّ طُ رُسُلَه عَلٰي مَنْ يَّشَا ءُ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59۔ الحشر 6) اور جو کچھ ( مال) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان سے دلوایا ہے وہ رسول کے لئے مخصوص ہوگیا ہے) تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ( یعنی تم نے اس کے حصول کے لئے کسی جنگ وجدال کی مشقّت برداشت نہیں کی ہے نہ سفر کی پریشانیاں جھیلی ہیں، بلکہ پیدل ہی چلے گئے تھے) لیکن اللہ تعالیٰ ( کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو جس پر چا ہے ( خاص طور پر) مسلّط فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت حاصل ہے۔ اس آیت کریمہ کے ذریعہ گویا مسلمانوں پر یہ واضح کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے مال وجائداد کا جو مالک و متصرف بنایا ہے تو وہ مال اس طرح کا ہے جس کو تم نے جنگ وجدال کے ذریعہ ان ( بنو نضیر) پر غلبہ پاکر اور دور دراز کے سفر کی مشقّت برداشت کر کے حاصل نہیں کیا ہے بلکہ بلا کسی جدوجہد کے ہاتھ لگا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنو نضیر کو مدینہ سے جلا وطن کردینے کا حکم دیا گیا اور بنو نضیر نے اس حکم کی تعمیل کرنے میں چوں و چراں کی تو آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کو لے کر اس جگہ کے لئے روانہ ہوئے جہاں بنو نضیر کے محلات، قلعے اور جائدادیں تھیں۔ وہ جگہ چونکہ مدینہ سے صرف دو میل کے فاصلے پر تھی اس لئے آنحضرت ﷺ کے علاوہ اور سب ہی لوگ پیدل تھے، وہاں پہنچنے پر جنگ وجدال کی نو بت نہیں آئی، کچھ عرصہ کے محاصرہ کے بعد بنو نضیر نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جو کچھ سامان اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے اونٹوں پر لاد کر خیبر کو روانہ ہوگئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان پر غلبہ وتسلّط عطاء فرمایا جیسا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہی ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور دین کے علمبرداروں کو دشمنان دین پر غلبہ وتسلّط عطاء فرماتا ہے۔ چناچہ ان کی جائداد و زمین وغیرہ بحق آنحضرت ﷺ ضبط کرلی گئیں اور وہاں کا سارا مال ( فئی) کے حکم میں ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے تصرف و اختیار میں آگیا۔ اسی لئے جب مسلمانوں نے اس مال کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اس مال کا یہ حکم بتایا گیا کہ اس طرح کا مال مال غنیمت کی طرح تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے تصرف و خرچ کا سارا اختیار صرف آنحضرت ﷺ کو ہے کہ آپ ﷺ جس طرح چاہیں خرچ کریں اور جس کو چاہیں اس میں سے دیں۔ چناچہ احادیث میں اس مال کے مصرف بھی بیان کیئے گئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس مال میں سے اپنی بیویوں کو انکا سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اور پھر جو باقی بچتا اس کو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کرتے اور جن فقراء و مساکین وغیرہ کو چاہتے ان کو دیتے۔ مال فئی کے مسئلہ میں حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے جو اوپر بیان ہوا لیکن طیبی نے حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک اس طرح بیان کیا کہ مال فئی میں چار خمس اور ایک خمس کے پانچویں حصے پر آنحضرت ﷺ کا حق ہوتا تھا، یعنی وہ مال پچیّس حصّوں میں تقسیم ہو کر اکیّس حصے تو آنحضرت ﷺ کے ذاتی تصرف و اختیار میں آتا اور باقی چار حصے آپ اپنے ذوی القر بیٰ یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتے تھے تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مال فئی کے مصرف کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ چناچہ ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مال فئی اسلامی مملکت و خلافت کے سربراہ کا حق ہے۔ امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ وہ مجاہدین و مقاتلین کا حق ہے کہ اس کے ان کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ اور دوسرا قول ہے کہ اس مال کے عام مسلمانوں کے اجتماعی مفادو مصالح میں خرچ کیا جائے۔ سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اس موقع پر ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ احادیث میں تو یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو پھر سال بھر کا خرچ کس طرح جمع کر کے رکھتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جن احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو اس کا تعلّق آپ ﷺ کی ذات سے ہے کہ آپ ﷺ اپنی ذات کے لئے کسی چیز کو بچا کر یا جمع کر کے رکھنا گوارا نہیں کرتے تھے اور یہاں جس بات کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلّق آپ ﷺ کے اہل و عیال سے ہے۔ لیکن واضح رہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر خرچ کبھی کبھی دیتے تھے مستقل طور پر یہ معمول نہیں تھا، تاہم امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ سال بھر کی ضروریات زندگی کی چیزیں مہیّا کر کے رکھ لینا جائز ہے اور یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔
Top