مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5278
وعنه قال حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين رأيت أحدهما وأنا أنتظر الآخر حدثنا إن الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة . وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة قتقبض فيبقى أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء ويصبح الناس يتبايعون ولا يكاد أحد يؤدي الأمانة فيقال إن في بني فلان رجلا أمينا ويقال للرجل ما أعقله وما أظرفه وما أجلده وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان . متفق عليه . ( متفق عليه )
جب امانت دلوں سے نکل جائے گی
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہم سے امانت کے بارے میں اور فتنے کے زمانہ کے حوادث کے سلسلہ میں دو حدیثیں یعنی دو باتیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کو تو دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں (یعنی حضور نے پہلی بات جو یہ فرمائی کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی ہے اس کو تو میں نے دیکھ لیا اور دوسری بات یعنی امانت کے اٹھ جانے کا منتظر ہوں) چناچہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا کہ۔ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی پھر انہوں نے اس امانت کو نور سے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے بعد آپ نے امانت کے اٹھ جانے (یعنی ایمان کے اثرات و برکات کے اٹھ جانے اور اس میں نقص آجانے کی حدیث بیان کی چناچہ فرمایا آدمی حسب معمول سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی (یعنی اس کے ایمان کے بعض ثمرات وانوار ناقص وکم ہوجائیں گے) پس امانت کا اثر یعنی نشان جو ایمان کا ثمرہ ہے وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا (حاصل یہ کہ ایمان کا نور دھندلا اور اس کا اثر وثمرہ ناقص ہوجائے گا) پھر جب وہ دوبارہ سوئے گا اور زیادہ غفلت طاری ہوگی تو اس کی امانت کا وہ حصہ بھی ناقص کردیا جائے گا اور نکال لیا جائے گا جو باقی رہ گیا تھا پس اس کے دل میں ایک مجل یعنی آبلہ جیسا نشان رہ جائے گا جیسا کہ تم آگ کی چنگاری کو اپنے پاؤں پر ڈال دو اور اس سے آبلہ پڑجائے جو بظاہر پھولا اور اٹھا ہوا ہوگا لیکن اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ پھر اس صورت حال کے بعد لوگ صبح کو اٹھیں گے تو حسب معمول آپس میں خریدو فروخت کریں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو امانت کو ادا کرے (یعنی شریعت کے حقوق ادا کرنے والا فرائض و واجبات کی تکمیل کرنے والا اور لوگوں کے حق میں کوئی خیانت و بددیانتی نہ کرنے والا کہیں دور دور بھی نظر نہیں آئے گا) یہاں تک کہ امانت و دیانت میں کمی آجانے کے سبب یہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ یا فلاں شہر و آبادی میں لوگوں کی کثرت کے باوجود بس ایک شخص ہے جو امانت دار یعنی کامل الایمان ہے۔ اور زبردست سیاسی مہارت و چالاکی اور دنیاوی شان و شوکت کا حامل ہوگا یا کہا جائے گا کہ اپنے دنیاوی کاروبار اور معاملات میں کس قدر عقلمند و ہوشیار، کس قدر خوبصورت ودانا، خوشگوار اور زبان آور ہے اور کس قدر چست و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
امانت سے مراد یا تو اس کے مشہور معنی ہیں یعنی کسی کے حق میں یا کسی کی ملکیت میں خیانت نہ کرنا یا وہ تمام شرعی ذمہ داریاں مراد ہیں جو ہر شخص پر عائد کی گئی ہیں یعنی تمام اسلامی احکام وتعلیمات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اور امانت کے یہ وہ معنی ہیں جو قرآن کریم کی اس آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ) 33۔ الاحزاب 72) میں مذکور ہیں تاہم ان دونوں معنی کی اصل اور بنیاد ایمان ہے اس لئے زیادہ وضاحت کے لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں امانت سے مراد ایمان ہے جیسا کہ خود حدیث کے آخری الفاظ وما فی قلبہ مثقال حبۃ من خر دل من ایمان سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے۔ اسی طرح حدیث کے اس جملہ ولا یکاد احد یودی الامانۃ میں امانت کا جو لفظ ہے وہ بھی مذکورہ وضاحت پر مبنی ہے۔ پس حضور ﷺ نے جو دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لئے ایمان و امانت کو نازل فرمایا اور اس کا مورود کل قلب انسانی کو قرار دیا کہ پہلے ایمان کا نور اور جوہر انسان کے دل میں اترا اور راسخ ومستحکم ہوا جس نے کتاب ہدایت قرآن مجید اور سنت نبوی پر عمل آوری کے راستہ کو منور کیا، چناچہ انسان نے اسی طور ایمان کے سبب ان لافانی تعلیمات اور احکام و مسائل کو جانا اور سمجھا جو کتاب اللہ سے اخذ کئے گئے ہیں اور وہ احکام و مسائل خواہ فرض و واجب اور مسنون ومباح ہوں یا حرام و مکروہ اور پھر اسی نور نے سنت نبی کی حقیقت و صداقت کو واشگاف کیا کہ زبان رسالت اور معمولات نبوی نے کتاب اللہ کی تعلیمات منشا حق کی جو وضاحت و تفسیر بیان فرمائی اس کو بلا چون وچرا قبول کر کے عمل کی راہ کو استوار کیا گیا۔ یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت کا پیدا کیا جانا اور اس کے ذریعہ انسانیت عامہ کو نوازنے اور فلاح پہنچانے کا ارادہ فرمانا کتاب اللہ کو نازل کرنے اور رسولوں کو مبعوث کرنے سے پہلے تھا، یعنی پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو پیدا کیا اور یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کو اس نور ہدایت کے ذریعہ سعادت و بھلائی کے بلند مقام پر پہنچانا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی کتاب کو دنیا میں نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر اور رسول مبعوث فرمائے پس نسل انسانی سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عنایت و ہدایت کا مورد ومحل بننا نصیب ہوا اور جن میں اس نور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق و استعداد و دیعت ہوئی وہی خوش بخت کتاب وسنت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ایک نکتہ اور بھی بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ۔ پھر انہوں نے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے ذریعہ ایمان و امانت کے مرتبہ کی شان و حیثیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت یعنی ایمان کو نازل فرمایا اور قلوب انسانی میں اس کو ودیعت و راسخ فرما دیا تھا مگر پھر کتاب اللہ کے نازل کرنے اور اپنے پیغمبر و رسول کے مبعوث کرنے کے ذریعہ بھی اس کو مؤ کد ومؤید کیا۔ بہرحال یہ وہ پہلی حدیث جو حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے ارشاد فرمائی اور حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے بایں طور کہ حضور ﷺ کے زمانہ اور رفاقت حضوری میں صحابہ کرام اس ارشاد گرامی کے عین مصداق تھے اور دوسری حدیث کہ جس میں حضور ﷺ نے امانت کے کم ہوجانے اور اٹھ جانے کا ذکر فرمایا وہ حضور کے مبارک زمانہ کے بعد کے لوگوں پر صادق آئی۔ آدمی حسب معمول سوئے گا الخ سے مراد یا تو حقیقۃ سونا ہے یا یہ جملہ اس کی غفلت و کوتاہی میں پڑجانے سے کنایہ ہے یعنی یاد الٰہی سے غافل آیت الٰہی سے بیخبر، قرآن مجید میں تدبر و تفکر سے بےپرواہ اور تباع سنت میں کوتاہ ہوجانا۔ یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے کیونکہ ماقبل جملہ ثم السنۃ (اور پھر انہوں نے سنت کو جانا) کا مخالف مفہوم اسی مراد کا متقاضی ہے۔ فیظل اثرہ مثل اثرالوکت امانت کا اثر یعنی نشان وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا۔ پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کسی چیز کا اثر وہ نشان کہلاتا ہے جو اس چیز کی علامت کے طور پر نمودار ہے اور اس چیز کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کی صورت میں باقی رہے اور وکت عکسی چیز کے اس دھبہ کو کہتے ہیں جو اس چیز کے مخالف رنگ کی صورت میں نمودار ہوجائے جیسے کسی سفید چیز میں سیاہ نقطہ کا نمودار ہونا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وکت اصل میں اس سفید نقطہ نما نشان کو کہتے ہیں جو آنکھ کی سیاہی میں پیدا ہوجائے۔ حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ دین و شریعت کی طرف سے غافل ہوجانے اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دل میں ایمان کا نور کم ہوجائے گا اور وہ غافل ہونے والا جب اس صورت حال سے آگاہ ہوگا اور اپنے دل کی حالت و کیفیت میں غور و فکر کرے گا تو یہ محسوس کرے گا کہ اس میں ایک نقطہ کی مقدار کے علاوہ نور امانت میں سے اور کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ جب وہ دوبارہ سو جائے گا کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب دین و شریعت سے غفلت کی نیند اور زیادہ طاری ہوجائے گی اور گناہوں کا ارتکاب زیادہ بڑھ جائے گا دل میں سے نور ایمان کا بقیہ حصہ بھی نکل جائے گا اور وہاں صرف مجل کے نشان کی طرح کی صورت میں رہ جائے گا واضح رہے کہ مجل کے معنی ہیں آبلہ پڑجانا اور کام کرتے کرتے ہاتھ کی جو کھال سخت ہوجاتی ہے اور جس کو گھٹا بھی کہتے ہیں اس پر بھی مجل کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طرح انسان کے جسم کے کسی حصہ پر جو آبلہ پڑجاتا ہے وہ اگرچہ اوپر سے ابھرا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح جس شخص کے دل میں امانت کا وہ باقی اثر و نشان بھی نکال لیا جائے گا تو اگرچہ وہ بظاہر بالکل صالح و کار آمد نظر آئے گا لیکن حقیقت میں اس کے اندر سعادت و بھلائی اور اخروی زندگی کو فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ مذکورہ وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وکت اور مجل نور امانت کے اس حصہ کی تمثیل ہے جو دل میں باقی رہ جاتا ہے گویا ان دونوں چیزوں کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دور میں اسلام کے نام لیواؤں میں ایمان و دین کی اس کمزوری کے باوجود ان کے دل میں ایمان و امانت کا نور کسی نہ کسی حد تک ضرور باقی رہے گا خواہ وہ وکت اور مجل کے نشان ہی کی طرح کیوں نہ ہو لیکن اس وضاحت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ مجل کا نشان وکت کے نشان سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لہٰذا کلام کے اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مجل کے نشان کا ذکر کیا جاتا اور اس کے بعد وکت کے نشان کا ذکر ہوتا کیونکہ بعد کے درجہ کا نشان پہلے درجہ کے نشان سے کمتر اور ہلکا ہونا چاہئے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وکت اگرچہ بہت قلیل نشان ہوتا ہے مگر وہ مجل سے کمتر حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ مجل ایک خالی اور بالکل بیکار ہونے کی وجہ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ جواب زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ایک شارح نے اس بحث پر ایک دوسرے انداز سے روشنی ڈالی ہے ان کے منقولات کے مطابق اس دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن اہل ایمان کے قوائے فکر و عمل پر غفلت وبے حسی طاری ہوجائے گی اور گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں دین شریعت کے ساتھ ان کا تعلق نہایت کمزور پڑجائے گا ان کے دلوں سے امانت جاتی رہے گی چناچہ جب اس کا ایک حصہ زائل ہوجائے گا تو ان کے دلوں میں سے اس کا نور بھی زائل ہوجائے گا اور اس کی جگہ وکت کی طرح ظلمت وتاری کی پیدا ہوجائے گی اور اس کی مثال ایسی جیسے کسی چیز میں اس کا مخالف رنگ نمودار ہوجائے مثلا سفید چیز میں سیاہ رنگ کا نمودار ہوجانا اور جب دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی اور بڑھ جائے گی اور گناہوں کا ارتکاب پہلے سے بھی زیادہ ہوجائے تو نور امانت کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس میں سے کچھ اور زائل ہوجائے گا اور اس کی مثال ؛ ایسی ہے جیسے جسم کے کسی حصہ پر مجل (یعنی آبلہ یا گٹھے کا نشان) اتنا گہرا اور اس قدر سخت ہوتا ہے کہ جلد زائل نہیں ہوتا، پس دوسری مرتبہ دل میں جو تاریکی پیدا ہوگی وہ پہلی مرتبہ پیدا ہونے والی تاریکی سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری ہوگی۔ مذکورہ صورت حال کو اس مثال کے ذریعہ بیان فرمانے کے بعد پھر یہ فرمایا کہ قلب انسانی میں ایمان و امانت کے نور کا پیدا ہونا اور پھر نکل جانا یا دلوں میں اس نور کا جگہ پکڑنا اور پھر اس کے زائل ہوجانے کے بعد تاریکی کا آجانا ایسی تشبیہ رکھتا ہے جیسا کہ کوئی آگ کا انگارہ لے کر اس کو اپنے پیر پر ڈال لے اور انگارہ پیر کو جلا کر زائل ہوجائے اور پھر جلی ہوئی جگہ پر آبلہ پڑجائے۔ ایک اور شارح نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں امانت کا نور پیدا کیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں فلاح کے راستہ پر چلیں اور دین و شریعت کے پیروکار بنیں لیکن جب وہ لوگ اس نعمت سے بےپرواہ ہوجائیں گے، دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی میں پڑجائیں گے اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان لوگوں سے یہ نعمت واپس لے لے گا۔ بایں طور کہ ان کے دل سے امانت نکل جائے گی، یہاں تک کہ جب وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے قلب کی وہ حالت نہیں ہے جو امانت کی موجودگی میں پہلے تھی۔ البتہ ان کے دلوں میں اس امانت کا نشان باقی رہے جو کبھی وکت کی طرح ہوگا اور کبھی مجل کی طرح ہوگا۔، پس مجل اگرچہ مصدر ہے لیکن یہاں اس سے مراد نفس آبلہ ہے اور یہ یعنی مجل پہلے مرتبہ یعنی وکت سے کمتر درجہ ہے۔ کیونکہ وکت کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگرچہ امانت دل سے نکل جائے گی مگر نشان کی صورت میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ باقی رہے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا دونوں احتمال رکھتے ہیں یا تو اصل ایمان کی نفی مراد ہے، یعنی اس شخص کے سرے سے ایمان کا وجود ہی نہیں ہوگا، یا کمال ایمان کی نفی مراد ہے کہ ارشاد گرامی کے اس جزو کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اس شخص کی عقل و دانائی کی زیادتی اور چالاکی اور مہارت وغیرہ کی تعریف کریں گے اور اس کے تئیں تعجب تحسین کا اظہار کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کی تعریف و توصیف نہیں کریں گے جس میں بہت زیادہ علم وفضل ہوگا اور جو عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز ایمان اور پاکیزگی فکر و عمل ہے۔ اگر کسی شخص میں ایمان و پاکیزگی کی دولت نہ ہو تو خواہ وہ دنیا بھر کی تمام نعمتوں، کامرانیوں اور خوبیوں کا حامل ہو اس کی کوئی حقیقت نہ ہوگی اگرچہ دنیا والے اس کی کتنی ہی تعریف وتحسین کریں اور اس کی ان خوبیوں و کامرانیوں کی وجہ سے اس کو کتنا ہی بہتر و برتر جانیں لہٰذا تعریف وتحسین اس شخص کے حق میں معتبر ہوگی جو ایمان وتقویٰ کا حامل ہو۔
Top