مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5280
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا . رواه مسلم . ( متفق عليه )
اس سے قبل کہ فتنوں کا ظہور ہو، اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی زندگی مستحکم کر لو
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (مسلم)

تشریح
اعمال صالحہ میں جلدی کرو کی ہدایت کا حاصل یہ ہے کہ اس تغیر پذیر دنیا کو کسی ایک رخ پر قرار نہیں اور وقت حالت کا بہاؤ ایک ہی سمت نہیں رہتا، اگر اب ایسے حالات ہیں جو عقیدہ و عمل کا رخ صحیح سمت رکھنے میں معاون بنتے ہیں تو بعد میں ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جو فکر ونظریات اور عقیدہ وعمل کا سفر ٹھیک رخ پر جاری رکھنے میں زبر دست رکاوٹ پیدا کردیں اور ایسے میں کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے ذہن وفکر اور دل و دماغ ان حالات کی تاثیر سے محفوظ رہ پائیں اور جن کے اعمال صالحہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہوتی ہو، پس جس شخص کو جو بھی موقع ملے اس میں اچھے کام اور نیک عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور جس قدر بھی اعمال کئے جاسکتے ہوں کر لئے جائیں کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت کیا فتنے لے کر آئے اور پھر اعمال صالحہ اختیار کرنے کا موقع بھی مل سکے یا نہیں۔ فتنوں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان سے چھٹکارے کی راہ کیا ہوگی، لہٰذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال صالحہ کے ذریعے اپنی دینی زندگی کو مضبوط ومستحکم بنا لو، آنے والے وقت کا انتظار نہ کرو کیونکہ اس وقت دین و شریعت کے تعلق سے سخت ترین آفات و مصائب میں اس طرح گم ہو کر رہ جاؤ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔ وہ وقت لوگوں کے ذہن وفکر اور اعمال و کردار پر کتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ مثلا آدمی جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا کمال ایمان کے ساتھ متصف ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے گا۔ رہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے؟ تو ہوسکتا ہے کہ اصل کفر مراد ہو، یعنی وہ شخص واقعۃ کفر کے دائرہ میں داخل ہوجائے گا یا یہ مراد ہے کہ وہ کفران نعمت کرنے والا ہوجائے گا، یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کرلے گا اور یا یہ کہ وہ ایسے کام کرنے لگے گا جو صرف کافر ہی کرتے ہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ جملہ کے معنی یہ ہیں کہ مثلا ایک شخص جب صبح کو اٹھے گا تو اس چیز کو حلال جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حرام جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، لیکن شام ہوتے ہوتے اس کے ذہن وفکر اور اس کے عقیدے میں اس طرح انقلاب آجائے گا کہ وہ اس چیز کو حرام سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حلال سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر جملہ کے دوسرے جزء یعنی شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کفر کی حالت میں ا تھے گا۔ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ عام لوگ ان فتنوں کی وجہ سے دین و شریعت کے معاملات میں تذبذب وتردد کا شکار ہوجائیں اور نام نہاد دانشور و عالم اور دنیادار مقتداؤں کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ مذکورہ صورت حال کے کئی وجوہ و اسباب اور مختلف مظاہر ہوں گے ایک تو یہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑجائے گا اور وہ مخالف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ پس ان کے درمیان محض عصبیت اور بغض وعناد کی وجہ سے خونریزی ہوگی اور دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مخالفین کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی کرنے کو حلال و جائز جانیں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حاکم و امراء ظلم وجور کا شیوہ اپنا لیں گے۔ چناچہ وہ مسلمانوں کا ناحق خون بہائیں گے، زور زبردستی ان کا مال لیں گے زنا کاری کریں گے، شراب پئیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی صریح زیادتیوں اور بدکاریوں کے باوجود بعض لوگ یہ عقیدہ رکھیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی بدعقیدگی کے اس فتنہ میں مبتلا کرنے والے وہ نام نہاد علماء ہوں گے جن کو علماء سو کہا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے بےمحابا ان امراء و حکام کے ان کاموں کے جواز کا فتوی دیا جائے گا جو وہ مسلمانوں کی خونریزی اور حرام امور کے ارتکاب کی صورت میں کریں گے اور تیسرے یہ کہ عام مسلمانوں میں جہالت اور دین کی ناواقفیت کی وجہ سے جو برائیاں پھیل جائیں گی اور ان سے جن غیر شرعی امور کا صدور ہوگا جیسے خریدو فروخت کے معاملات اور دوسرے سماجی امور و تعلقات میں دین و شریعت کے احکام کی خلاف ورزی، ان کو حلال و جائز مانیں گے۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوگی کہ لوگ اپنے اغراض و منافع کی خاطر، دنیادار امراء و حکام اور اہل دولت و ثروت سے میل جول رکھیں گے ان سے حاجت روائی کی امید میں ان کے ہاں گھستے پھریں گے ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے تابع محض اور جی حضوری بن جائیں گے اور ان کے خلاف شریعت امور و معاملات میں ان کی موافقت تائید کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ آدمی صبح کو اٹھے گا تو اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال وعزت کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنے کے سبب ایمان کی حالت میں ہوگا مگر شام ہوتے ہوئے اس کے عقیدے میں تبدیلی آجائے گی اور وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال کو حلال سمجھنے لگے گا اور اس کے سبب وہ کافر قرار دیا جائے گا یہ معنی اختیار کرنے کی صورت میں فتنوں سے مراد جنگ و قتال ہوگا۔ لیکن اس جملہ کے جو معنی پہلے بیان کئے گئے ہیں وہ حضور ﷺ کے ارشاد گرامی کے زیادہ مناسب ہیں۔
Top