مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5285
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش . رواه البخاري . ( متفق عليه )
ایک خاص پیش گوئی
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث میں امت سے مراد صحابہ کرام اور اہل بیت نبی ﷺ ہیں جو امت کے سب سے بہتر و افضل افراد تھے۔ اور لفظ غلمۃ غلام کی جمع ہیں جس کے معنی نوجوان کے ہیں اور صراح میں لکھا ہے کہ غلام کے معنی لڑکے کے ہیں نیز واضح رہے کہ غلام کا لفظ اصل میں غلم اور اغتلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں شہوت کا جوش و غلبہ بہرحال یہاں غلمۃ (نوجوانوں) سے مراد وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں جو غیر سنجدیدہ اور بیباک ہوتے ہیں بڑوں، بزرگوں کا ادب و احترام نہیں کرے اور ہل علم و دانش اور باوقار لوگوں کی عظمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ پس آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں قریش کے جن نوجوانوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان سے قریش سے نسلی تعلق رکھنے والے دین وملت کے وہ بدخواہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جاہ و سلطنت اور ذاتی اغراض حاصل کرنے کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو شہید کیا اور ان کی ہلاکت کا باعث بنے یا جنہوں نے اس وقت ملت میں افتراق و انتشار اور ظلم و بغاوت کا فتنہ پیدا کیا نیز مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں لوگوں کو تعین وتشخص کے ساتھ جانتے تھے لیکن اس حدیث کو بیان کرتے وقت، فتنہ وشرانگیز کے خوف سے ان لوگوں کے نام ظاہر نہیں فرماتے تھے اور وہ لوگ بنو امیہ کے عبداللہ بن زیاد اور ان جیسے دوسرے نوجوان، حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مراوان کا میرالامراء بنا سلیمان بن عبدالملک جیسے نوخیز اور ان کی اولاد میں سے دوسرے افراد تھے جنہوں نے اس حد تک فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا کہ اہل بیت نبوی کو بےپناہ مظالم کا شکار بننا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا بڑے اونچے درجہ کے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کو بڑی مظلومیت کے ساتھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسی ایسی خونریزیاں ہوئیں اور جان ومال کا اس قدر نقصان ہوا کہ زمین و آسمان کانپ گئے چناچہ ان لوگوں کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔
Top