مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5291
وعن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما أخاف على أمتي الأئمة المضلين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنهم إلى يوم القيامة . رواه أبو داود والترمذي . ( حسن )
گمراہ کرنے والے قائد
حضرت ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی امت کے حق میں جن لوگوں سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام ہیں۔ یاد رکھو جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو پھر قیامت تک نہیں رکے گی۔ ( ابوداؤد )

تشریح
ائمہ اصل میں امام کی جمع ہے اور امام قوم و جماعت کے سردار، پیشوا اور اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے قول یا فعل یا عقیدے کی اتباع کی طرف بلائے، پس اس ارشاد کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی حیثیت نیز ان کے دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی جو چیز ہے وہ مسلمانوں کی قیادت و رہبری اور پیشوائی کرنے والے لوگوں کا گمراہ ہونا ہے کیونکہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی شخص کے گمراہ ہونے کا نقصان اسی کی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن قائد و پیشوا کی گمراہی کا نقصان و ضرر پوری قوم و جماعت کو متاثر کرتا ہے۔ جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے خلاف تلوار و طاقت آزمائی کی سیاست کی ابتداء ہوجائے گی اور باہمی مسائل و معاملات کو افہام تفہیم اور دین ودیانت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے تشدد و خونریزی کے راستے کو اختیار کرلیا جائے گا تو پھر طاقت آزمائی اور تشدد و خونریزی کا وہ فتنہ قیامت تک ٹھنڈا نہیں ہوگا اور مسلمان کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے امت میں خونریزی کی اتبداء ہوجانے کے جس خوف کی طرف اشارہ فرمایا تھا اس کا مصداق امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ؓ کے واقعہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ چناچہ اسلام میں سے پہلے مسلمان نے مسلمان کے خلاف جو تلوار اٹھائی اور خون بہایا وہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ہے۔ اور پھر ان کے سانحہ شہادت کے بعد مسلمانوں میں باہمی خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک باقی ہے جیسا کہ مخبر صادق ﷺ نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
Top