مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5295
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه وسلم قال كيف بك إذا أبقيت في حثالة من الناس مرجت عهودهم وأماناتهم ؟ واختلفوا فكانوا هكذا ؟ وشبك بين أصابعه . قال فبم تأمرني ؟ قال عليك بما تعرف ودع ما تنكر وعليك بخاصة نفسك وإياك وعوامهم . وفي رواية إلزم بيتك واملك عليك لسانك وخذ ما تعرف ودع ما تنكر وعليك بأمر خاصة نفسك ودع أمر العامة . رواه الترمذي وصححه .
پر فتن ماحول میں نجات کی راہ
حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب تم اپنے آپ کو ناکارہ لوگوں کے زمانے میں پاؤ گے جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی اور جو آپ میں اختلاف رکھیں گے، گویا وہ ولوگ اس طرح کے ہوجائیں گے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا۔ حضرت عبداللہ ؓ نے یہ سن کر عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے ہدایت فرمائیے کہ اس وقت میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تم پر لازم ہوگا کہ اس چیز کو اختیار کرو اور اس پر عمل کرو جس کو تم دین و دیانت کی روشنی میں حق جانو اور اس چیز سے اجتناب ونفرت کرو جس کو تم ناحق اور برا جانو، نیز صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کرلو۔ اور ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ اپنے گھر میں پڑے رہو بلا ضرورت باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جاؤ اپنی زبان کو قابو میں رکھو، جس چیز کو حق جانو اس کو اختیار کرو اور جس چیز کو برا جانو اس کو چھوڑ دو، صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور عوم الناس سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔

تشریح
حثالۃ کے معنی ہیں چاول اور جو وغیرہ کا چھلکا، جس کو بھوسی کہتے ہیں اسی طرح کسی بھی چیز کے ناکارہ اور بےفائدہ حصے کو بھی حثالہ کہا جاتا ہے، پس حثالۃ من الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جو انسانی و اخلاقی قدروں کے اعتبار سے ادنیٰ درجے کے ہوں، جو انسانیت کا جوہر نہ رکھنے کے سبب نہایت پست ہوں اور جو دین وآخرت کے اعتبار سے بالکل ناکارہ اور بےفائدہ ہوں۔ جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل بےاعتبار اور ناقابل اعتمال دولت ہوں گے ان کے کسی عمل اور کسی قول کا کوئی بھروسہ نہیں ہوگا، ان کے کسی اقدام اور کسی معاملہ میں پختگی و استقلال نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، ان کے عہد و پیمان اور فیصلے لمحہ بہ لمحہ مختلف شکل و صورت میں بدلتے رہیں گے، دین ودیانت کے تقاضوں سے بےپرواہ ہوں گے اور امانتوں میں خیانت کریں گے۔ اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا یعنی آپ ﷺ نے یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کی ہلاکت کے درپے ہوں گے اور ان کے باہمی اختلاف ونزاعات کی کیا صورت ہوگی اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کر کے دکھایا اور بطور مثال واضح فرمایا کہ جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں اسی طرح ان کی اخلاقی وسماجی حیثیت اس درجے الجھی ہوئی اور ان کے دینی معاملات و اعمال اس قدر خلط ملط ہوں گے کہ امین وخائن اور نیک وبد کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرنا جس طرح باہمی اختلاف ونزاع کو بطور تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے اسی طرح کبھی دو چیزوں کے باہمی رطب واتصال اور اتفاق ویگانگت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بیان میں وہ حدیث گزری ہے جس میں حضور ﷺ نے مال غنیمت کے خمس کی تقسیم کے تعلق سے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے باہمی ربط واتصال اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت ویکجائی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور تمثیل اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا تھا۔ دونوں صورتوں پر اس تمثیلی عمل کا اطلاق معنوی طور پر بھی کوئی تضاد نہیں رکھتا بلکہ تشبیک کے جو اصل معنی ہیں، یعنی باہم مختلط ہونا، دو چیزوں کا ایک دوسرے میں داخل ہونا، وہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کرلو کا ملطب یہ ہے کہ پر فتن دور میں سب سے زیادہ ضرورت خود اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے دین و کر در کی حفاظت کی ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت تم بھی بس اپنے دین اور اپنی اخروی بھلائی کے کاموں کی تکمیل و حفاظت میں مشغول رہنا اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کسی فکر و خیال میں نہ پڑنا۔ یہ حکم ایسے ماحول میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل نہ کرنے کی ایک درجہ میں اجازت کے طور پر ہے جب کہ شریر و بدکار لوگوں کی کثرت اور ان کا غلبہ ہو اور صالح ونیک لوگوں کی طاقت بہت کم ہو۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھو کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے ماحول میں برائیوں کا دور دورہ ہوجاتا ہے اور شریر و بدکار لوگوں کے اثرات غالب ہوتے ہیں تو زبان سے اچھی بات نکالنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے، لہٰذا تم اس وقت لوگوں کے احوال و معاملات کے بارے میں بالکل خاموشی اختیار کئے رکھنا، کسی کی برائی یا بھلائی میں اپنی زبان نہ کھولنا تاکہ تمہاری بات کا برا ماننے والے لوگ تمہیں تکلیف و ایذاء نہ پہنچائیں۔ اس موقع پر ایک خاص بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ پر فتن دور کے سلسلے میں ایک حدیث تو یہ ہے اور ایک حدیث پیچھے گزری ہے جس کو حضرت حذیفہ ؓ نے نقل کیا ہے، ان دونوں میں ایک طرح سے تضاد نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں تو آنحضرت ﷺ نے گویا حضرت عبداللہ بن عمرو کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس پر فتن ماحول میں بھی لوگوں کے درمیان بودوباش رکھنے سے پرہیز نہ کریں اور دنیا والوں سے مکمل یکسوئی علیحدگی اختیار نہ کریں، نیز ان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیہ و اصلاح اور اپنی دینی زندگی کو سدھارنے سنوارنے لگیں رہیں، عوام الناس کے معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور ان کے حالات و اعمال کے تئیں کوئی فکر نہ کریں۔ اس کے برخلاف آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ ؓ کو یہ حکم دیا کہ وہ ایسے ماحول میں بودوباش نہ رکھیں اور لوگوں سے مکمل علیحدگی ویکسوئی اختیار کر کے کسی ویرانہ وجنگل میں چلے جائیں دونوں حدیثوں کے اسی ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ ایک صورت حال کے لئے اس دو طرح کے حکم کا تعلق دراصل شخصی حالت کی رعایت و مصلحت کے اعتبار سے ہے، یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو وہ حکم دیا جو اس کی حالت و حیثیت کے مطابق تھا، جس میں اس کی اصلاح پوشیدہ تھی اور جس پر عمل کر کے وہ نجات و فلاح کی راہ پاسکتا تھا جیسا کہ مرشد ومصلح کا طرز اصلاح ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیر اور مرید کے ذہن ومزاج اور اس کے طبعی و شخصی حیثیت وحالت کے مطابق ہی اس کو تلقین و ہدایت کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ جیسا کہ معلوم ہے نہایت اونچے درجے کے صحابی ہیں، ان کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عظمت و فضیلت کے حامل تھے، منقول ہے کہ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اتنے عابد و زاہد تھے کہ افطار کئے بغیر مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، رات بھر سوتے نہیں تھے بلکہ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، دنیاوی لذات و خواہشات سے اس قدر متنفر تھے کہ بیوی تک کی طرف کوئی رجحان نہٰ رکھتے تھے، ایک دن ان کے والد محترم حضرت عمرو بن عاص ؓ ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لے کر آئے اور ان کی اس عبادت و ریاضت کا حال بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے ان کو اتنی سخت ریاضت اور اتنی زیادہ عبادت سے منع کیا اور حکم فرمایا کہ بلا افطار تین دن سے زیادہ روزے نہ رکھا کرو اور پوری رات کے بس تہائی یا چھٹے حصے میں شب بیداری کیا کرو، نیز آپ ﷺ نے ان کے یہ بھی نصیحت کی کہ اپنے بزرگوار باپ کی مرضی ومنشاء کا ہمیشہ لحاظ رکھنا۔ چناچہ حضور ﷺ کی اس وصیت و نصیحت کی بنا پر انہوں نے ملت میں تفرقہ و انتشار کے سخت ترین فتنے کے دور میں بھی اپنے والد بزرگوار سے علیحدگی وجدائی اختیار نہیں کی، جو حضرت امیر و معاویہ ؓ کے مشیر اعلیٰ اور وزیر تھے اور جیسا کہ حضور ﷺ نے ان کو فرمایا تھا، وہ لوگوں کے معاملات و حالات سے بےپرواہ ہو کر اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی استقامت کی طرف متوجہ رہتے، جب ان کے والد حضرت عمرو ان سے کہا کرتے کہ تم ہم میں سے ہونے کے باوجود ہم سے الگ الگ کیوں رہتے ہو اور ہماری کاروائیوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ آپ لوگوں کے اچھے کاموں میں تو شریک ہوں لیکن ان کاموں میں خود کو شریک نہیں کرسکتا جو میرے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ومنشاء کے منافی وملی مفاد کے خلاف ہیں۔ نیز ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بڑے سے بڑے فتنے کے وقت بھی ان کے دل سے اہل بیت نبوی ﷺ کی عزت و احترام کا جذبہ کسی بھی طرح سے کم ہوا ہو، ان کا باطن ہمیشہ اہل بیت کی محبت و عظمت سے منور رہا۔
Top