مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5302
فتنہ مختار کی تفصیل
فتنہ سراء کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ فتنہ بھی مختار کے فتنہ و فساد کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکا ہے۔ مختار وہ شخص تھا جس نے پہلے تو مکر و فریب کے ذریعے پھر باقاعدہ جنگ کر کے اہل عراق پر تسلط حاصل کرلیا تھا اور اپنی اس کاروائی کے لئے حضرت محمد بن الحنفیہ کی اجازت اور اہل بیت نبوی ﷺ کی تائید ونصرت کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کا واقعہ بھی تھوڑی سی تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس شخص کا اصل نام مختار بن عبیدہ ابن مسعود ثقفی تھا۔ کوفہ (عراق) میں رہتا تھا اور شیعان علی میں سے تھا حضرت امام حسین ؓ نے اہل کوفہ کی دعوت پر جب کوفہ جانا طے کرلیا اور پہلے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا تاکہ وہ پوشیدہ طور پر کوفہ میں کام کر کے لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لیں تو مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر اسی مختار بن عبیدہ کے مکان پر فروکش ہوئے تھے پھر اس سلسلے میں جو کچھ پیش آیا اور حادثہ کربلا واقع ہوا وہ سب بہت مشہور واقعات ہیں۔ کربلا میں شہادت حسین کے سانحہ کے بعد کوفہ میں ایک جماعت توابین کے نام سے معرض وجود میں آئی جس کا سردار سلیمان بن صرد تھا یہ جماعت کوفہ کے ان لوگوں پر مشتمل تھی جو یہ کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کی بےوفائی کی وجہ سے حضرت امام حسین ؓ کو کربلا میں جام شہادت نوش کرنا پڑا اور ہم اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تائب ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اس جرم کی تلافی کے طور پر خون حسین کا انتقام لیں گے اور ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے، جس نے قتل حسین میں ذرا بھی حصہ لیا ہے۔ مختار بن عبیدہ چونکہ پہلے ہی سے اپنی مختلف سازشوں کے ذریعے عراق پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا تھا اور اس مقصد کے لئے قاتلان حسین کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں اپنے گرد جمع کر رہا تھا، اس لئے اس نے توابین کی جماعت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرلیا اور جماعت کے لوگوں اور ان کے ہمنواؤں کو جمع کر کے کہا کہ تمہارا سردار سلمان تو ایک پست ہمت آدمی ہے، لڑنے سے جان چراتا ہے، لہٰذا امام مہدی محمد بن الحنفیہ نے جو حضرت امام حسین کے بھائی ہیں مجھے کوفہ میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرلو اور خون حسین کا بدلہ لینے کے لئے میرے جھنڈے تلے جمع ہوجاؤ، چناچہ کوفہ کے وہ تمام لوگ جو شیعان حسین کہلاتے تھے، مختار کے ہاتھ پر بیعت ہونے لگے اس وقت عراق پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کا قبضہ تھا اور کوفہ میں ان کی طرف سے عبداللہ بن یزید گورنر تھے انہیں جب مختار کی سرگرمیوں اور اس کے حقیقی ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے مختار کو گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا، لیکن توابین کی جماعت کا سردار سلیمان ابن صرد بہرحال اپنی جنگی تیاریوں میں پہلے ہی سے مصروف تھا، وہ ستر ہزار مسلح افراد کا لشکر لے کر عبداللہ بن زیاد کے خلاف جنگ کرنے چلا جو کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کو شہید کرنے والی کار روائیوں کا تمام تر ذمہ دار تھا اور مروان بن حکم کی طرف سے موصل میں بحیثیت گورنر تعینات تھا، پھر عین الوردہ کے مقام پر عبداللہ بن زیاد کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا اور کئی دن کی جنگ کے بعد خود سلیمان بن صرد اور جماعت توابین کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے فوج میں سے جو لوگ باقی بچے وہ وہاں سے بھاگ کر کوفہ واپس آگئے، کوفہ میں مختار نے جیل سے جہاں وہ قید تھا ان لوگوں کو ہمدردی کا پیغام بھیجا اور تسلی دلائی کہ تم لوگ غم نہ کرو، اگر میں زندہ رہا تو خون حسین کے ساتھ تمہارے مقتولین کے خون کا بدلہ بھی ضرور لوں گا، اس کے بعد اس نے کسی کے ذریعے سے جیل کے اندر ہی سے ایک خط حضرت عبداللہ بن عمر کے نام مدینہ بھیجا جس میں یہ درخواست کی کہ عبداللہ بن یزید گورنر کوفہ سے سفارش کر کے مجھے رہائی نصیب فرمائیں چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے گور رنر کوفہ کو سفارشی خط لکھ دیا اور گورنر نے ان کی سفارش کی تکریم میں مختار کو اس شرط پر جیل سے رہا کردیا کہ وہ کوفہ میں کوئی شورش نہیں پھیلائے گا اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا۔ اس مکار نے جیل سے آنے کے بعد کوفہ والوں اور بالخصوص شیعان حسین پر یہ ظاہر کیا کہ یہ میری روحانی طاقت اور کرامت تھی جس نے جیل کے دروازے وا کرا دئیے اور میں باہر آگیا۔ ادھر کسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن زبیر نے عبداللہ بن یزید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن مطیع کو مقرر کردیا، مختار نے اس عزل ونصب کو بھی اپنی کرامت ظاہر کیا اور پرانے حاکم کے کوفہ سے چلے جانے کے بعد تمام پابندیوں کو توڑ کر آزادانہ طور پر اپنی سازشی کار روائیوں میں مصروف ہوگیا، اس نے مکر و فریب اور عیاریوں کے ذریعے کوفہ والوں پر اپنی روحانی بزرگی و کر امت کا کچھ ایسا سکہ جمایا کہ لوگ دھڑا دھڑ اس کے مرید ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جماعت حیرت انگیز طور پر ترقی کرگئی، کو توال شہر نے اس کی جماعت کی ترقی اور اس کی سازشی تحریک سے گورنر کو مطلع کیا اور دارالامارۃ (گورنر ہاؤس) سے اس کے خلاف کار روائی کرنے تیاری بھی ہوئی مگر وقت گزر چکا تھا اور مختار نہایت عیاری کے ساتھ حکام کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا اور روپوش ہو کر اپنی جماعت کو ایک باضابطہ فوج میں تبدیل کردیا اور کوفہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگیا ادھر اس نے محمد بن الحنفیہ کو پوری طرح شیشے میں اتار ہی رکھا تھا چناچہ جب مختار نے کوفہ کے بعض دوسرے بااثر حضرات کو قاتلان حسین کے خلاف بھڑکا کر اپنے ساتھ ملانا چاہا اور محمد بن الحنفیہ کی نیابت کا دعویٰ کیا اور ان لوگوں نے کچھ آدمیوں کو اس کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے محمد بن الحنفیہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا کہ ہاں مختار کا خون حسین کا بدلہ لینے کی ہم نے اجازت دی ہے۔ اس تصدیق نے مختار کو بہت تقویت پہنچائی آخر کار ایک دن رات کے اندھیرے میں مختار نے اپنی جماعت کے مسلح افراد کے ساتھ خروج اختیار کیا اور کوفہ کے گلی کوچوں میں لڑائی چھڑ گئی، کافی سخت مقابلہ آرائی کے بعد سرکاری فوج کو شکست ہوگئی اور عبداللہ بن مطیع گورنر کوفہ کو دارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا اور پھر تین دن کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح دارالامارۃ سے چھپ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے مختار نے سرکاری دفاتر اور بیت المال پر قبضہ کرلیا اور کوفہ کے لوگوں سے محمد بن الحنفیہ کے نام پر بیعت لینے لگا اور پورے شہر پر اس کا تسلط قائم ہوگیا، کچھ ہی دنوں کے بعد کوفہ کے لوگ مختار کے خلاف ہوگئے مگر مختار نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان پر بھی قابو پا لیا اور پورے شہر میں اس طرح قتل عام کرایا کہ کوفہ کا کوئی بھی گھر ایسا نہیں بچا جس میں سے ایک یا دو یا اس سے زائد آدمی قتل نہ کئے گئے ہوں اس نے قاتلان حسین سے بھی انتقام لیا اور جس جس نے میدان کربلا میں کوئی حصہ لیا تھا ان میں سے ہر ایک کا سر تن سے جدا کرا دیا ایک طرف تو وہ کوفہ پر تسلط پانے کے بعد دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کاروائیوں میں مصروف رہا اور دوسری طرف حضرت علی ؓ کی کرسی کھڑاگ کھڑا کر کے لوگوں کو اپنی غیر معمولی روحانی طاقتوں کا معتقد بنانے میں لگا رہا اور رفتہ رفتہ نبوت کے دعوؤں تک پہنچ گیا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر کو معلوم ہوا کہ مختار نہ صرف یہ کہ کوفہ میں لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے اور اہل کوفہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسرے علاقوں کو بھی ہتھیانے کے منصوبے بنا رہا ہے بلکہ یہ مشہور کرنے لگا ہے کہ میرے پاس جبرائیل امین آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں اور میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں تو انہوں نے اس کے استیصال میں مزید تاخیر کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور اپنے بھائی مصعب بن زبیر کو بصرہ کا گورنر مقرر کر کے مختار کے فتنہ کی سرکوبی کی مہم ان کے سپرد کی، چناچہ حضرت مصعب اپنی فوج کو لے کر کوفہ کی طرف چلے، ادھر جب مختار کو اس فوج کشی کا علم ہوا تو وہ بھی اپنا لشکر لے کر کوفہ سے نکلا، دونوں فوجوں کا مدارا نامی گاؤں کے قریب مقابلہ ہوا اور خوب زور و شور کی لڑائی ہوئی آخر کار مختار شکست کھا کر کوفہ بھاگا اور دارالامارۃ میں قلعہ بند ہوگیا۔ حضرت مصعب بن زبیر ؓ نے کوفہ پہنچ کر دارالامارۃ کا محاصرہ کرلیا، مختار سامان رسد کی کمی سے مجبور ہو کر قلعہ کا دروازہ کھول کر باہر آیا اور آخری مرتبہ مقابلہ کیا لیکن جلد ہی موت کے گھاٹ اتر گیا اور اس طرح کوفہ کا یہ فتنہ ختم ہوگیا۔
Top