مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5303
مروان کا قصہ
حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے بعد لوگ ایک ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کرلیں گے جو پسلی کی ہڈی کے اوپر کو ل ہے کی مانند ہوگا۔ تو حضرت شاہ صاحب نے اس کا مصداق مروان بن حکم کو قرار دیا ہے۔ مروان بن حکم کی خلافت کا قصہ اگرچہ مختار کے فتنہ سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور جس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر کی فوج نے اس کو کوفہ میں قتل کر کے اس فتنہ کی سرکوبی کی اس وقت مروان بن حکم کا انتقال ہوچکا تھا اور بنو امیہ کی خلافت کا جانشین عبدالملک بن مروان مقرر ہوچکا تھا لیکن اگر اس لفظی تقدیم و تاخیر سے صرف نظر کر کے دیکھا جائے تو حضرت شاہ صاحب کے بیان کردہ اس مصداق کو صحیح ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ مروان بن حکم وہی تھا جس نے معاویہ بن یزید بن معاویہ کے انتقال کے بعد پورے عالم اسلام پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی قائم ہوجانے والی خلافت کو چیلنج کیا اور مختلف سازشوں کے ذریعے دمشق میں اپنی خلافت پر بیعت کرنے کے لئے لوگوں کو مجبور کردیا، چناچہ بنو امیہ کے علاوہ شام کے دیگر قبائل بنو کلب اور عنان و طے وغیرہ نے اس کی خلافت پر اتفاق کرلیا اور پھر اسی وقت سے افتراق و انتشار اور فتنہ و فساد کا سلسلہ شروع ہوگیا جس نے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا اور ملی طاقت کو اس طرح متشر کردیا کہ کافی عرصے تک مسلمان آپس میں برسر پیکار رہے اور جس قوت کو دشمنان دین کے خلاف استعمال ہونا چاہئے تھا وہ مختلف علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ مروان بن حکم عیار و چالاک ہونے کے باجود قوت فیصلہ، بصیرت و تدبر اور رائے ومزاج کے استقلال و استحکام جیسے وہ اوصاف نہیں رکھتا تھا جو ملی نظم ونسق اور مملکت کے سیاسی استحکام کے لئے اشد ضروری تھے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف ہوا اور شام میں بنو امیہ کے حامی مددگار و طاقتور اور مقتدر قبائل بنو کلب اور بنو قیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگیں تو مروان نے یہ دیکھ کر کہ نہ صرف عراق بلکہ شام کا بھی ایک بڑا حصہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کو تسلیم کرچکا ہے، ارادہ کیا تھا کہ دمشق سے روانہ ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہو اور اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا وفادار ہوجائے بلکہ اس نے سفر کا سامان بھی درست کرلیا تھا لیکن اس دوران عبداللہ بن زیاد دمشق آگیا جب اس کو مروان کے اس ارادے کا علم ہوا تو اس نے مروان کو باصرار اس ارادے سے باز رکھا اور اس بات پر ہموار کرلیا کہ وہ خلافت کے امیدوار کی حیثیت سے بیعت لینا شروع کر دے، چناچہ مروان کی خلافت دراصل عبداللہ بن زیاد کی کوششوں کا نتیجہ تھی، اگر مروان میں مستقل مزاجی، رائے کی پختگی اور تدبر و دور اندیشی کا جوہر ہوتا تو وہ کسی قیمت پر ابن زیاد کی رائے نہ مانتا اور اپنے ارادے میں اٹل رہ کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں چلا جاتا اور اس کی وجہ سے جو فتنے پیدا ہوئے اور پوری ملت کو جس نقصان وضرر میں، مبتلا ہونا پڑا شاید اس کی نوبت نہ آتی۔
Top