مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2215
وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لم يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي
تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کا مسئلہ
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے تین رات سے کم میں قرآن پڑھا یعنی ختم کیا اس نے قرآن کو اچھی طرح نہیں سمجھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

تشریح
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق و معارف اور دقائق ونکات تک اس کو رسائی بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے بڑی سے بڑی عمریں ناکافی ہوتی ہیں نہ یہ بلکہ اس مختصر سے عرصہ میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمہ کے حقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آسکتے نیز یہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے نہ کہ ثواب کی نفی یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہے پھر یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بھی تفاوت وفرق ہے بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق ودقائق کو سمجھ لیتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لئے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چناچہ ان لوگوں کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے جب کہ دوسرے لوگ اس کے برخالف عمل کرتے تھے چناچہ بعض لوگ تو ایک رات دن میں ایک بار اور بعض لوگ دو دو بار اور بعض لوگ تین تین بار قرآن ختم کرتے تھے بلکہ بعض لوگوں کے بارے میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں نے یا تو اس حدیث کے بارے میں یہ خیال کیا ہو کہ اس کا تعلق باعتبار اشخاص کے مختلف ہے یعنی اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو کم فہم ہوتے ہیں اور جو اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کریں تو اس کے ظاہر معنی بھی نہ سمجھ سکتے ہوں پھر ان کے نزدیک بات یہ ہو کہ اس حدیث میں فہم کی نفی ہے اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ جتنی بھی کم سے کم مدت میں قرآن ختم کیا جائے ثواب ملے گا۔ بعض لوگ دو مہینے میں ایک قرآن ختم کرتے تھے بعض لوگ ہر مہینے میں بعض لوگ دس دن میں اور بعض لوگ سات دن میں ایک قرآن ختم کردیتے تھے چناچہ اکثر صحابہ وغیرہم کا یہی معمول تھا کہ وہ سات دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ قرآن سات میں ختم کرو اور اس پر زیادتی نہ کرو۔
Top