مشکوٰۃ المصابیح - قسامت کا بیان - حدیث نمبر 3496
عن رافع بن خديج وسهل بن أبي حثمة أنهما حدثا أن عبد الله بن سهل ومحيصة بن مسعود أتيا خيبر فتفرقا في النخل فقتل عبد الله بن سهل فجاء عبد الرحمن بن سهل وحويصة ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه و سلم فتكلموا في أمر صاحبهم فبدأ عبد الرحمن وكان أصغر القوم فقال له النبي صلى الله عليه و سلم : كبر الكبر قال يحيى بن سعد : يعني ليلي الكلام الأكبر فتكلموا فقال النبي صلى الله عليه و سلم : استحقوا قتيلكم أو قال صاحبكم بأيمان خمسين منكم . قالوا : يا رسول الله أمر لم نره قال : فتبرئكم يهود في أيمان خمسين منهم ؟ قالوا : يا رسول الله قوم كفار ففداهم رسول الله صلى الله عليه و سلم من قبله . وفي رواية : تحلفون خمسين يمينا وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم فوداه رسول الله صلى الله عليه و سلم من عنده بمائة ناقة وهذا الباب خال من الفصل الثاني
قسامت میں مدعی سے قسم لی جائے یا مدعا علیہ سے
حضرت رافع ابن خدیج اور حضرت سہل ابن حثمہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سہل اور محیصہ ابن مسعود خیبر آئے تو (ایک دن سیر کرتے ہوئے) دونوں کھجور کے درختوں میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے (یعنی ایک کسی سمت کو نکل گیا اور دوسرا کسی اور سمت چلا گیا) چناچہ عبداللہ ابن سہل کو (اکیلا پا کر) کسی نے قتل کردیا (اس حادثہ کے بعد) عبدالرحمن ابن سہل (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے) اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ (جو مقتول کے چچا زاد بھائی تھے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے عزیز مقتول کے بارے میں مقدمہ پیش کیا، جب عبدالرحمن نے گفتگو کی ابتداء کی (جو مقتول کے حقیقی بھائی تھے اور) تینوں میں سب سے چھوٹے تھے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے بڑے کی بڑائی کو ملحوظ رکھو، یعنی تم تینوں میں جو شخص سب سے بڑا ہے اس کو گفتگو کی ابتداء کرنے دو ) حضرت یحییٰ ابن سعید (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے کہ اس ارشاد گرامی سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو شخص سب سے بڑا ہو وہ ذمہ دار ہو، چناچہ (اس کے بعد) انہوں نے (یعنی ان کے بڑے بھائی نے) گفتگو کی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں تو تم اپنے مقتول یا (اپنے مقتول کی بجائے) یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کا خون بہا یا قصاص لینے کے مستحق ہو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو ایسی چیز ہے جس کو ہم نے نہیں دیکھا ہے (یعنی ہم یہ قطعا نہیں جانتے کہ مقتول کو کس شخص نے قتل کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا پچاس یہودی قسم کھا کر (تمہارے اس شبہ سے) تمہیں پاک کردیں گے (یعنی وہ قسم کھا لیں گے کہ مقتول کو ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور اس طرح ان پر جو قتل کا شبہ یا الزام ہے اس کو وہ ختم کردیں گے) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ تو کافر ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار) چناچہ رسول کریم ﷺ نے (فتنہ دفع کرنے کے لئے) مقتول کے ورثاء کو اپنی طرف سے خون بہا ادا کردیا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) تم پچاس قسمیں کھاؤ اور اپنے مقتول۔ یا یہ فرمایا کہ اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹ خون بہا میں ادا کر دئیے۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
جو شخص سب سے بڑا ہو وہ گفتگو کا ذمہ دار ہو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص عمر میں سب سے بڑا ہو اس کا اکرام و احترام ضروری ہے اور گفتگو کی ابتداء اسی کی طرف سے ہونی چائیے۔ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حدود میں وکالت جائز ہے، نیز اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حاضر کی وکالت بھی جائز ہے کیونکہ مقتول کے خون کے ولی ان کے حقیقی بھائی یعنی عبدالرحمن ابن سہل تھے اور حویصہ اور محیصہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسامت میں پہلے مدعی سے قسم لی جائے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ پہلے مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔ وہذا الباب خال عن الفصل الثانی۔ اور اس باب میں دوسری فصل نہیں ہے
Top