مشکوٰۃ المصابیح - گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب - حدیث نمبر 1468
وَعَنْ اَبِی بَکْرَۃَ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا جَاءَ ہ، اَمْرٌ سُرُوْرًا اَوْ یَسُرُّ بِہٖ خَرَّ سَاجِدًا شَاکِرًلِلّٰہِ تَعَالٰی رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔
خوشی کے وقت رسول اللہ ﷺ کا سجدہ شکر
حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب خوشی کا امر پیش آتا۔ یا راوی نے لفظ سرور کی بجائے یسربہ کہا ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی ایسا امر پیش آتا جس سے آپ ﷺ خوش ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گرپڑتے۔ اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

تشریح
علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے حدیث کے ظاہری مفہوم کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ حصول نعمت پر سجدہ شکر مشروع ہے جب کہ دوسرے علماء نے اس سے اختلاف کیا ہے اور حدیث کے مفہوم کے بارے میں کہا ہے یہاں دراصل سجدہ سے مراد نماز ان کی اس تاویل کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھی جب کہ آپ ﷺ کو جنگ میں فتح کی خوشخبری دی گئی یا یہ کہ ابوجہل کا سر کاٹ کر لا گیا۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر بندہ ہر نئی حاصل ہونے والی نعمت پر سجدہ کو لازم قرار دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل بھی سجدہ سے خالی نہ ہو کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پل ایسا نہیں آتا جو اپنے دامن میں اللہ تعالیٰ کی نعمت نہ لئے ہوئے ہو۔ پھر یہ کہ انسان کی زندگی خود اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ ہر سانس کا باہر آنا اور اندر جانا اور آنے والا ہر لمحہ اور ہر پل ایک نعمت ہے، چونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ لوگ بہت زیادہ مشقت اور تکلیف میں مبتلا ہوجائیں گے بلکہ انسانی زندگی کا پورا نظم معطل ہو کر رہ جائے گا اس لئے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سجدہ شکر سنت نہیں ہے۔
Top