مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4244
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله يحب أن يرى أثر نعمته على عبده . رواه الترمذي
حق تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا اظہار ایک مطلوب عمل ہے
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے بندے پر دیکھا جائے۔ (ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مادی نعمت عطا کرے تو چاہئے کہ وہ اس کو ظاہر کرے مثلاً وہ اپنی حیثیت کے مطابق اور مبالغہ و اسراف کی حد تک جائے بغیر اچھے کپڑے پہنے، لیکن اس کو خوش پوشا کی کسی غرور وتکبر اور اتراہٹ کے جذبہ سے نہیں ہونی چاہئے بلکہ شکر گزاری کی نیت سے ہونی چاہئے تاکہ فقراء محتاج، زکوٰۃ صدقات لینے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو چھپانا اچھا نہیں ہے بلکہ کفران نعمت کا موجب ہے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو روحانی نعمت جیسے علم و فضل کی دولت اور بزرگی و شخصیت عطا فرمائے تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس نعمت کا اظہار کرے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اوپر کی حدیث میں تو ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ اور اس حدیث میں خوش پوشا کی کی ذریعہ گویا زیب وزینت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اس صورت میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان جو ظاہری تضاد محسوس ہوتا ہے، اس کے دفعیہ کے لئے کیا توجیہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اوپر کی حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ خوش پوشا کی کی حیثیت و استطاعت نہ ہو، چناچہ اس صورت میں ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے تاکہ اگر کسی شخص کو کسی موقع پر خوش پوشا کی کی ضرورت بھی لاحق ہو اور وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس مقصد کی تکمیل کے لئے غیر موزوں تکلیف و اہتمام کر کے اور ناروا زحمت برداشت کر کے اچھے کپڑے حاصل کرنے کی سعی نہ کرے، بلکہ صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے ترک زینت ہی پر عامل رہے اس کے برخلاف جو شخص عمدہ پوشاک پہننے اور لباس کی نفاست و لطافت کو اختیار کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور وہ اس کے باوجود ترک زینت ہی کو اپنا معمول کی بنا پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پر قناعت کئے رہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کیوں کہ اس کی یہ عادت اصل میں بخل و خست پر محمول ہوگی۔
Top