مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4277
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : اتخذ النبي صلى الله عليه وسلم خاتما من ذهب وفي رواية : وجعله في يده اليمنى ثم ألقاه ثم اتخذ خاتما من الورق نقش فيه : محمد رسول الله وقال : لا ينقشن أحد على نقش خاتمي هذا . وكان إذا لبسه جعل فصه مما يلي بطن كفه
مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام اور چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا۔ اور پھر اس کو پھینک دیا، پھر آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کرائے اور فرمایا کہ کوئی شخص میری اس مہر کی مانند الفاظ (اپنی انگوٹھی میں) کندہ نہ کرائے نیز آنحضرت ﷺ جب انگوٹھی پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے سونے کی انگوٹھی اس وقت بنوائی تھی جب کہ مردوں کے لئے سونا حرام نہیں ہوا تھا چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مردوں کے لئے سونا پہننا حرام قرار دے دیا تو آپ ﷺ نے وہ انگوٹھی پھینک دی امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں کہا ہے کہ مردوں کے لئے جس طرح سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اسی طرح ان کے لئے لوہے اور کانسی وغیرہ کی انگوٹھی بھی جائز نہیں ہے لہٰذا مرد کو چاندی کے علاوہ اور کسی چیز کی انگوٹھی نہیں چاہئے۔ عورتوں کے لئے سونے کی انگوٹھی اور دوسرے زیورات پہننا جائز ہے بلکہ علماء نے یہ لکھا ہے کہ عورتوں کو چاندی کی انگوٹھی مکروہ ہے، کیونکہ چاندی کی انگوٹھی مرد پہنتے ہیں اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنا مکروہ ہے، لہٰذا اگر کوئی عورت چاندی کی انگوٹھی پہننا ہی چاہئے تو وہ اس کے رنگ کو کسی ملمع وغیرہ کے ذریعہ تبدیل کر دے۔ نیز ہدایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں انگوٹھی کے حلقہ کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے نگینہ کا۔ کوئی شخص میری مہر کے مانند الفاظ کندہ نہ کرائے اصل بات یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ یہ دیکھا کرتے تھے کہ مسلمان میری اتباع کے کس قدر حریص اور شیدائی ہیں وہ میرے ہر عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ لوگ میری اس مہر کے الفاظ اپنی انگوٹھیوں میں بھی کندہ کرنے لگیں، لہٰذا آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا نیز اس ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنحضرت ﷺ کی اس مہر اور اس میں کندہ الفاظ کی ایک قانونی حیثیت بھی تھی کہ آپ ﷺ جو خطوط وغیرہ دنیا کے بادشاہوں اور سربرہان مملکت کے نام بھیجا کرتے تھے ان پر وہی مہر ثبت فرماتے تھے اس صورت میں اگر دوسرے لوگ بھی اپنی انگوٹھیوں میں اسی طرح کی مہر کندہ کراتے تو نہ صرف یہ کہ مہر رسالت کی مخصوص حیثیت ان بادشاہوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتی بلکہ ایک عجیب طرح کی خرابی بھی واقع ہوجاتی۔ قاضی خاں نے کہا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہننا اس شخص کے حق میں مباح ہے جس کے لئے مہر رکھنا ایک ضرورت کے درجہ کی چیز ہو جیسے قاضی وغیرہ اور جو شخص مہر رکھنے کا ضرورت مند نہ ہو اس کے حق میں افضل یہی ہے کہ چاندی کی انگوٹھی کا بھی استعمال نہ کرے نیز جو شخص انگوٹھی پہنے اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ انگوٹھی کو بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنی جائے تو سیوطی کہتے ہیں کہ احادیث تو دائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی منقول ہیں اور بائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی، لیکن عمل ان ہی احادیث پر ہے جن میں بائیں ہاتھ میں پہننے کا ذکر ہے اور جو احادیث دائیں ہاتھ کے متعلق ہیں ان کو منسوخ قرار دیا گیا ہے چناچہ عدی وغیرہ نے حضرت ابن عمر ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ پہلے تو دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے لیکن پھر بائیں ہاتھ میں پہننے لگے۔ سفر السعادہ کے مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، بعض روایتوں میں تو نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور بعض روایتوں میں بائیں ہاتھ میں پہننا نقل کیا گیا ہے یہ سب روایتیں صحیح ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ دائیں ہاتھ میں پہنتے ہوں گے اور کبھی بائیں ہاتھ میں۔ امام نووی یہ لکھتے ہیں کہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگوٹھی کا دائیں ہاتھ میں بھی پہننا جائز ہے اور بائیں ہاتھ میں بھی لیکن شوافع کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں کی بہ نسبت شرف و فضیلت رکھتا ہے اس لئے وہی ہاتھ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی زینت و آرائش اور تو قیر ہو۔
Top