مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4294
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من أحب أن يحلق حبيبه حلقة من نار فليحلقه حلقة من ذهب ومن أحب أن يطوق حبيبه طوقا من نار فليطوقه طوقا من ذهب ومن أحب أن يسور حبيبه سوارا من نار فليسوره من ذهب ولكن عليكم بالفضة فالعبوا بها . رواه أبو داود
سونے کے زیورات پہننے والی عورت کے بارے میں وعید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے عزیز یعنی بیوی یا اولاد وغیرہ کو (ان کے کان یا ناک میں) آگ کا حلقہ پہنانا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا حلقہ ضرور پہنائے (یعنی سونے کا بالا وغیرہ پہنانے کی سزا یہ ہے کہ اس کو آگ کا بالا وغیرہ پہنایا جائے گا) جو شخص اپنے عزیز کی گردن میں آگ کا طوق ڈالنا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا گلوبند ضرور پہنائے اور جو شخص اپنے عزیز کو آگ کا کنگن پہنانا پسند کرتا ہو وہ اس کو کنگن ضرور پہنائے، لیکن چاندی کے استعمال کی تمہیں اجازت ہے کہ تم اس کو اپنے استعمال و تصرف میں لاسکتے ہو۔ (ابوداؤد)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ فلعبوابھا کا اصل ترجمہ تو یہ ہے کہ تم چاندی سے کھیلو، یعنی چاندی کے زیورات بنوا کر اپنی عورتوں کو پہناؤ، اس کی انگوٹھی بنوا کر خود پہنو اور اگر اپنے ہتھیار جیسے تلوار وغیرہ کی زینت و آرائش چاہو تو اس مقصد کے لئے بھی چاندی استعمال کرسکتے ہو، لیکن حدیث کے ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی زیب وزینت اور دنیا کے زیورات لہو و لعب میں داخل ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے مباح ہوں، یا اس طرف اشارہ ہے کہ زیور دار عورت کے ساتھ تفریح و دل چسپی لینا گویا اس کے زیور کے ساتھ کھیلنا ہے۔ ابن مالک کہتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ کھیلنا اس میں خواہش ومرضی کے مطابق تصرف کرنے کے مرادف ہے، لہٰذا ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عورتوں کے زیور کے اقسام میں سے جس قسم کا زیور چاہو اس میں چاندی کا استعمال کرو، لیکن مردوں کو صرف انگوٹھی، تلواروں اور جنگ کے دوسرے ہتھیاروں کی زینت و آرائش کے لئے چاندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔
Top