مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4343
وعن عبد الله بن بريدة قال قال رجل لفضالة بن عبيد ما لي أراك شعثا ؟ قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهانا عن كثير من الإرفاه قال مالي لا أرى عليك حذاء ؟ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نحتفي أحيانا . رواه أبو داود .
زیادہ عیش وآرام کی زندگی اختیار کرنا میانہ روی کے خلاف ہے
حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت فضالہ بن عبیدہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کو پراگندہ بال (یعنی آپ کے بال بغیر کنگھی کئے ہوئے) دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے ہمیں منع فرمایا کرتے تھے (اور کنگھی و تیل کا زیادہ استعمال بھی اسی میں شامل ہے) اس شخص نے پھر یہ پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کے پیروں میں جوتیاں نہیں دیکھ رہا ہوں! انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم ﷺ ہمیں یہ حکم دیتے تھے کہ ہم کبھی کبھی ننگے پیر بھی پھیرا کریں۔ (ابو داؤد)

تشریح
عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے اجتناب کرنے اور کبھی کبھی ننگے پیر پھرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح سے ایک تو مزاج و طبیعت میں تواضع و انکسار پیدا ہوتا ہے دوسری طرف اس ریاضت و مشقت کے ذریعہ نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور اس کا ایک تو بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حالات و معیشت کی سختی و تنگی کے وقت وہ ریاضت و مشقت کام آتی ہے اور سختی و تنگی کو انگیز کرنے کی ہمت و توانائی عطا کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ بالوں میں تیل بھی لگاتے تھے اور کنگھی بھی کرتے تھے بلکہ اس کو اچھا سمجھتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی حکم و ترغیب کے ذریعہ اس پر عمل کراتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ بعض حاملین زہد و ریاضت کو اس کے خلاف بھی رکھتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے سامنے ان چیزوں کو ترک کرتا تو آپ ﷺ اس کو ٹوکتے نہیں تھے بلکہ ان چیزوں کو ترک کرنے کا حکم بھی فرماتے تھے! اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سلسلے میں اصل کراہت جس بات میں ہے وہ یہ ہے کہ عیش و راحت اور خوشحالی و آسودگی میں حد اعتدال سے تجاوز کیا جائے یہاں تک کہ نفس تن آسانی کا خوگر ہوجائے اور تیل لگانے و کنگھی کرنے اور زینت و آرائش میں ایسا انہماک ظاہر کرے جو دین بیزار اور عیش و عشرت کے دلدادگان کا شیوہ ہے لہٰذا جب یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زیب وزینت کے ذرائع اختیار نہ کرو اور اپنے رہن سہن میں سادگی و انکساری اور بےتکلفی بلکہ زہد و ریاضت کو اختیار کرو تو اس سے یہ مراد مطلق نہیں ہوتی کہ میلے کچیلے رہ کر پاکیزگی و نظافت کو ترک کردو اور اپنے کو اول جلول بنا کر تہذیب و شائستگی اور خوش ہیتی کا مذاق اڑاؤ۔ بلکہ اس حکم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بہر صورت اعتدال اور میانہ روی کو ملحوظ رکھو! کسی بھی شرعی حکم کا یہ منشا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ رہن سہن کا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو تہذیب و شائستگی کے خلاف اور نفاست و پاکیزگی کے منافی ہو کیونکہ انسان کو مہذب و شائستہ بنانا اسلام کا ایک مقصد اور تہذیب و پاکیزگی، دین کا ایک جزو ہے جیسا آگے آنے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔
Top