مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4350
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم من شاب شيبة في الإسلام كتب الله له بها حسنة وكفر عنه بها خطيئة ورفعه بها درجة . رواه أبو داود .
بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سفید بالوں کو نہ چنو کیونکہ بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ) مسلمانوں کے لئے نورانیت کا سبب ہے، جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے یعنی جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کی ایک خطا کو محو کردیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔ (ابوداؤد)

تشریح
بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بڑھاپا اصل میں وقار کا مظہر ہے، جیسا کہ تیسری فصل میں آنے والی ایک روایت سے واضح ہوگا کہ بنی آدم میں سب سے پہلے شخص پر سفید بالوں کی صورت بڑھاپا آیا وہ حضرت ابراہیم علیہ والسلام تھے چناچہ جب انہوں نے پہلے پہل اپنی داڑھی میں سفید بال کی صورت میں بڑھاپا دیکھا تو بار گاہ کبریائی میں عرض کیا کہ میرے پروردگار! یہ کیا ہے؟ جواب آیا کہ یہ وقار ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ خداوند ا! میرے وقار کو زیادہ کر۔ وقار، دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ فسق اور بےحیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو میدان حشر میں ظلمت و تاریکیوں کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ آیت ( يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ ) 57۔ الحدید 12) لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور مراد ہے چناچہ ایک روایت میں اس کی تفریح بھی ہے اور اگر نورانیت سے شکل و صورت کی خوشنمائی و دل کشی اور باطن کی صفائی نیک سیرتی مراد ہو جو اس دنیا میں بوڑھوں کو حاصل ہوتی ہے تو یہ بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے۔
Top