مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4366
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى الرجال والنساء عن دخول الحمامات ثم رخص للرجال أن يدخلوا بالميازر . رواه الترمذي وأبو داود .
حمام میں جانے کا ذکر
اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مردوں اور عورتوں کو حمام میں جانے سے منع فرما دیا تھا، پھر بعد میں آپ ﷺ نے مردوں کو اس صورت میں جانے کی اجازت دے دی تھی جب کہ ان کے جسم پر تہبند ہو! (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
حمام سے مراد وہ غسل خانے ہیں جو عوامی ضرورت کے لئے بازاروں میں بنائے جاتے ہیں اور جہاں ہر کس و ناکس نہانے کی غرض سے آتا جاتا ہے بلکہ پہلے زمانوں میں تو اس قسم کے حمام ہوتے تھے، جہاں علیحدہ علیحدہ نہانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی کئی آدمی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ غسل کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس صورت میں ستر پوشی ممکن نہیں ہوسکتی تھی اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو حمام میں جانے سے منع کردیا البتہ بعد میں مردوں کو اس شرط کے ساتھ جانے کی اجازت دی کہ وہ بغیر تہبند کے جو گھٹنوں تک ہونا ضروری ہے وہاں غسل نہ کریں۔ مظہر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے (تہبند کی شرط کے ساتھ بھی) عورتوں کو حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ ان کے اعضاء ستر کے حکم میں داخل ہیں کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی کھولنا جائز نہیں ہے تاہم واقعی ضرورت و مجبوری کی صورت میں عورتوں کے لئے بھی اجازت ہے مثلا شدید سردی کے موسم میں حیض و نفاس سے فراغت کے بعد، یا ناپاک ہونے کی صورت میں نہانے کی ضرورت ہو یا کسی علاج کے سلسلے میں گرم پانی سے نہانا ضروری ہو اور گرم پانی کا حمام کے علاوہ اور کہیں انتظام نہ ہو نیز ٹھنڈے پانی سے نہانا ضرر و نقصان کا باعث ہو تو اس صورت میں عورت کو بھی حمام جانے کی مخصوص اجازت ہوگی۔ یہاں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ اس وضاحت سے وہ وجہ ظاہر نہیں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا کہ اس ممانعت میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیوں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کی موجودگی میں عورت کے لئے فرق وہی حکم ہے جو مرد کی موجودگی میں مرد کے لئے ہے جس طرح مرد کو کسی مرد کے سامنے اپنے جسم کو کھولنا جائز ہے۔ علاوہ اس حصہ جسم کے جو شرعی طور پر عورت کے لئے ستر کے حکم میں ہے اس اعتبار سے قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ زنانہ حمام میں جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ اپنے جسم کے اس حصے کو ضرور چھپائے رہیں جن کو عورت کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ہے؟ اس خلجان کو اس توجیہ کے ذریعہ رفع کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کو مذکورہ شرط کے ساتھ حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی ہوگی کہ عام طور پر عورتیں اپنی ہم جنسوں کے سامنے اپنی ستر پوشی کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھتیں، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو عورتوں کے سامنے حتی کہ اجنبی عورتوں تک کے سامنے اپنے ستر کی عریانیت کو معیوب نہیں سمجھتیں، چہ جائیکہ اپنی اقا رب جیسے ماں یا بیٹی یا بہن وغیرہ کے سامنے ستر کھولنے کو کوئی برائی سمجھیں یہاں تک کہ گھر میں بھی غسل وغیرہ کے مواقع پر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے اپنے ستر کو چھپانے کا خیال نہیں رکھتیں چہ جائیکہ حمام میں کہ جہاں ویسے بھی ایک دوسرے کے سامنے ستر پوشی بڑی مشکل سے قائم رکھنی پڑتی ہے بلکہ اکثر عورتیں تو کوئی کپڑا وغیرہ لپٹنیے تک روادار نہیں ہوتیں، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے نور نبوت کے ذریعہ عورتوں کی اس حالت کا ادراک کرلیا اور ان کے لئے راستہ ہی کو بند کردیا۔
Top