مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4371
وعن ابن عمر أنه كان يصفر لحيته بالصفرة حتى تمتلئ ثيابه من الصفرة فقيل له لم تصبغ بالصفرة ؟ قال إني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها ولم يكن شيء أحب إليه منها وقد كان يصبغ ثيابه كلها حتى عمامته . رواه أبو داود والنسائي .
آنحضرت ﷺ کے خضاب کرنے کا ذکر
اور حضرت ابن عمر ؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی پر زرد خضاب کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بھی زرد آلود ہوجاتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ زرد خضاب کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنی ریش مبارک پر) زرد خضاب کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ ﷺ کے نزدیک داڑھی پر خضاب کرنے کے لئے زرد رنگ سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں تھی، نیز آنحضرت ﷺ اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی رنگ دیتے تھے۔ (ابوداؤد، نسائی)

تشریح
زرد خضاب سے مراد ورس کے ذریعہ خضاب کرنا ہے جو ایک گھاس ہوتی ہے اور زعفران کے مشابہ ہوتی ہے۔ بسا اوقات ورس کے ساتھ زعفران کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یصبغ بہا سے ابن عمر ؓ کی مراد یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی ریش مبارک پر زرد خضاب کرتے تھے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کو واضح کیا گیا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ بالوں کو رنگنا مراد ہے اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کپڑوں کو رنگنا مراد ہے، نیز سیوطی نے کہا ہے کہ یہی قول اشبہ یعنی صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ کا بالوں کا رنگنا منقول نہیں ہے لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ جب یہ بات درجہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسم کے رنگے ہوئے اور زعفرانی کپڑے پہننے سے منع کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ کو کپڑوں کے زرد رنگنے پر محمول کیا جائے لہٰذا زیادہ صحیح بات وہی ہے جو صاحب نہایہ نے نقل کی ہے کہ مختار قول یہ ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ نے بالوں کو رنگا اور اکثر نہیں رنگا لہٰذا راویوں میں سے ہر ایک نے اسی چیز کو بیان کیا جس کو اس نے دیکھا ہے اس اعتبار سے ہر راوی اپنے بیان میں سچا ہے۔ تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو زرد رنگ دیتے تھے اس سے یہ قطعا مراد نہیں ہے کہ آپ ﷺ خاص طور کپڑوں کو زرد رنگتے تھے اور پھر اس کو پہنتے تھے، کیونکہ زرد رنگ کے کپڑے پہننے کی ممانعت منقول ہے بلکہ عبارت کا مقصد، محض یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ جو زرد خضاب لگاتے تھے اس کے اثر سے آپ ﷺ کے کپڑے بھی زرد ہوجاتے تھے۔
Top