مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3286
وعن عائشة قالت : خيرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فاخترنا الله ورسوله فلم يعد ذلك علينا شيئا
اختیارکا مسئلہ
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں اختیار دیدیا تھا کہ اگر تم دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر چھوڑ دوں اور اگر تم اللہ، اللہ کے رسول اور دارآخرت کی طلبگار ہو تو پھر جان لو کہ تمہارے لئے اللہ کے ہاں بیشمار اجر عظیم ثواب ہے) چناچہ ہم نے دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو اختیار کرلیا اور آنحضرت ﷺ نے اس اختیار کو ہمارے لئے طلاق کی اقسام میں کوئی قسم جیسے ایک ایک طلاق یا دو طلاقی یا رجعی یا بائن) کچھ بھی اختیار نہیں کیا (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اپنے نفس کو اختیار کرلو یا مجھے اختیار کرلو اور پھر بیوی خاوند کو اختیار کرلے تو اس سے کسی طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن اگر بیوی اپنے نفس کو اختیار کرلے تو اس صورت میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک طلاق رجعی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک طلائق بائن اور حضرت امام مالک کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ منقول ہے کہ صحابہ میں سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس بات کے قائل تھے کہ بیوی کو شوہر کے محض اختیار دے دینے ہی سے طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے خواہ وہ اپنے شوہر ہی کو کیوں نہ اختیار کرلے۔ اور حضرت زید ابن ثابت اس بات کے قائل تھے کہ طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے چناچہ حضرت عائشہ نے ان دونوں ہی کے اقوال کی تردید میں یہ حدیث بیان کر کے گویا یہ واضح کردیا کہ شوہر کے محض اختیار دینے سے کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
Top