مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3311
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه و سلم لاعن بين رجل وامرأته فانتقى من ولدها ففرق بينهما وألحق الولد بالمرأة . متفق عليه . وفي حديثه لهما أن رسول الله صلى الله عليه و سلم وعظه وذكره وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة ثم دعاها فوعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة
لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چناچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہوگیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کردیا (بخاری مسلم) اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری ومسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ ﷺ نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔

تشریح
تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم وقاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہوجاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہوجائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہوجائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہوگی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کردیا جائے گا اور غیرشادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہوسکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہوگیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بےبنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃ عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کردی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف و اقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہوجاتی ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف و اقرار کرلو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔
Top