مشکوٰۃ المصابیح - نماز قصر سے متعلقہ احادیث - حدیث نمبر 1305
نماز سفر کا بیان
مسافر جب اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعت والی فرض نماز کی دو رکعتیں ہی پڑھنا واجب ہے اگر کوئی آدمی سفر کی حالت میں جب کہ اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعتیں پڑھے گا تو گنہگار ہوگا اور دو واجب کو چھوڑنے والا ہوگا یعنی ایک واجب تو قصر کا ترک ہوگا اور دوسرے قعدہ اخیرہ کے بعد فورًا سلام پھیرنا، کیونکہ مسافر کے حق میں پہلا قعدہ ہی قعدہ اخیرہ ہوتا ہے اس کے بعد اسے فورا سلام پھیر دینا چاہیے اگر اس نے نہیں پھیرا بلکہ کھڑا ہوگیا اس طرح اس نے دوسرے واجب کو ترک کیا۔ اس موقع پر اتنی بات بھی جانتے چلئے کہ مسافر کے لئے قصر کے جواز میں کسی بھی عالم اور کسی بھی امام کا اختلاف نہیں ہے صرف اتنی بات ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تو قصر واجب ہے لیکن امام شافعی کے ہاں قصر اولیٰ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر قصر نہیں کرے گا تو وہ امام صاحب کے مسلک کی رو سے گنہگار ہوگا، مگر حضرت شافعی کا مسلک اسے گنہگار نہیں قرار دے گا۔ بلکہ اولیٰ و افضل چیز کو ترک کرنے والا کہلائے گا۔ مسافت قصر قصر اتنی مسافت کے لئے واجب ہوتا ہے جو متوسط چال سے تین دن سے کم میں طے نہیں ہوسکتی۔ متوسط چال سے مراد آدمی یا اونٹ کی متوسط رفتا رہے تین دن کی مسافت ہے یہ مراد ہے کہ صبح سے دوپہر تک چلے نہ یہ کہ صبح سے شام تک، اسی لئے فقہاء نے موجودہ زمانے میں اس مسافت کا اندازہ اڑتالیس میل کیا ہے گویا اگر کوئی آدمی اڑتالیس میل (تقریباً ٧٨ کلومیٹر) کی مسافت کے لئے اپنے گھر سے سفر پر نکلے تو جیسا کہ او پر ذکر کیا گیا اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی اس پر قصر واجب ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی مسافت قصر (یعنی ٤٨ میل یا ٧٨ کلو میٹر) کو کسی تیز سواری مثلاً گھوڑے یا ریل وغیرہ کے ذریعے تین دن سے کم میں طے کرے تب بھی وہ مسافر سمجھا جائے گا اسے بھی قصر نماز پڑھنی چاہیے۔ مدت قصر مسافر کو اس وقت تک قصر کرنا چاہیے۔ جب تک کہ اپنے وطن اصلی نہ پہنچ جائے یا کسی مقام پر کم سے کم پندرہ دن ٹھہرنے کا قصد نہ کرے بشر طی کہ وہ مقام ٹھہرنے کے لائق ہو اگر کوئی آدمی دریا میں ٹھہرنے کی نیت کرے یا دارلحرب میں یا اسی طرح جنگل میں تو اس نیت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا۔ ہاں خانہ بدوش لوگ اگر جنگل میں بھی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کریں تو یہ نیت صحیح ہوجائے گی اس لئے کہ وہ جنگلوں میں ہی رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی اس مقدار مسافت کو قطع کرنے سے قبل کہ جس کا سفر میں اعتبار کیا گیا ہے کسی مقام پر ٹھہرنے کی یا اپنے وطن لوٹ جانے کی نیت کرے تو وہ مقیم ہوجائے گا۔ اگرچہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو اب یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے سفر کے ارادے کو ختم کردیا ہے۔ قصر کے کچھ مسائل (١) مندرجہ ذیل صورتوں میں اگر کوئی مسافر مسافت سفر پوری کرنے کے بعد پندرہ دن سے بھی زیادہ ٹھہر جائے تو وہ مقیم نہ ہوگا اور اس پر قصر کرنا واجب رہے گا۔ (الف)۔ پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو مگر کسی وجہ سے بلا قصد و ارادہ زیادہ ٹھہرنے کا اتفاق ہوجائے۔ (ب)۔ کچھ نیت ہی نہ کی ہو، بلکہ امروز، فردا میں اس کا ارادہ وہاں سے چلے جانے کا ہو مگر وہ اسی پس و پیش میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہر جائے۔ (ج)۔ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے مگر وہ مقام قابل سکونت نہ ہو۔ (د) پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے مگر دو مقام پر، بشرطیکہ ان دونوں مقامات میں اس قدر فاصلہ ہو کہ ایک مقام کی اذان کی آواز دوسرے مقام میں نہ جاسکتی ہوں، مثلا دس روز مکہ معظمہ میں رہنے کا ارادہ کرے اور پانچ روزمنی میں مکہ سے منیٰ تین میل کے فاصلے پر ہے اور اگر رات کو تو ایک مقام میں رہنے کی نیت کرے اور دن کو دوسرے مقام پر تو جس موضع میں رات کو ٹھہرنے کی نیت کرلی ہے وہ اس کا وطن اقامت ہوجائے گا وہاں اس کو قصر کی اجازت نہ ہوگی اب دوسرا مقام جہاں وہ دن کو رہتا ہے اگر اس پہلے مقام سے سفر کی مسافت پر ہے تو وہاں جانے سے مسافر ہوجائے گا ورنہ مقیم رہے گا اور اگر ایک مقام دوسرے مقام سے اس قدر قریب ہو کہ ایک جگہ کی اذان کی آواز دوسری جگہ جاسکتی ہے۔ تو وہ دونوں مقام ایک ہی سمجھے جائیں گے اور دونوں جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کے ارادے سے مقیم ہوجائے گا۔ (٢) مقیم کی اقتداء مسافر کے پیچھے ہر حال میں درست ہے خواہ اداء نماز ہو یا قضا، مسافر امام جب دو رکعتیں پڑھ کے سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی کو چاہیے کہ اٹھ کر اپنی نماز پوری کرلے اور اس میں قرأت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے اس لئے کہ وہ لاحق ہے اور قعدہ اولیٰ اس مقتدی پر بھی فرض ہوگا مسافر امام کے لئے مستحب ہے کہ سلام پھیرنے کے فوراً بعد مقتدیوں کو اپنے مسافر ہونے کی اطلاع یہ کہہ کر دے دے کہ میں مسافر ہوں، مقتدی اپنی نماز پوری کرلیں۔ مسافر بھی مقیم کی اقتداء کرسکتا ہے مگر وقت کے اندر، وقت کے بعد نہیں۔ اس لئے کہ مسافر جب مقیم کی اقتداء کرے گا تو امام کی اتباع میں چار رکعت یہ بھی پڑھے گا اور امام کا قعدہ اولیٰ نفل ہوگا اور اس کا فرض، امام کی تحریمہ قعدہ اولیٰ کے نفل ہونے کے ساتھ ہوگی اور مسافر مقتدی کی اس کی فرضیت کے ساتھ پس فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہوئی اور یہ درست نہیں۔ مسافر فجر کی سنتوں کو ترک نہ کرے اور مغرب کی سنت کو بھی ترک کرنا بہتر نہیں ہے اور باقی اور سنتوں کے ترک کا اختیار ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اگر چل رہا ہو اور اطمینان نہ ہو تو نہ پڑھے ورنہ پڑھ لے۔ (علم الفقہ)
Top