مشکوٰۃ المصابیح - نماز قصر سے متعلقہ احادیث - حدیث نمبر 1310
وَعَنِ بْنِ عّبَّاسٍ قَالَ سَافَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَفَراً فَأَقَامَ تِسْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ قَالَ ابْنُ عُبَّاسٍ فَنَحْنُ نُصَلِّی فِیْمَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَکَّۃَ تِسْعَۃَ عَشَرَ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ فَاِذَا اَقَمْنَا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ صَلَّیْنَا اَرْبَعَا۔ (رواہ البخاری)
مدت اقامت
اور حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ (کہیں) سفر پر تشریف لے گئے اور وہاں انیس دن قیام فرمایا (دوران قیام) آپ ﷺ دو دو رکعتیں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بھی جب مکہ اور اپنے (یعنی مدینہ) کے درمیان کہیں انیس دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعتیں نماز پڑھتے ہیں اور جب اس سے زیادہ ٹھہرتے ہیں تو چار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ (صحیح البخاری )

تشریح
فاقام تسعۃ عشر یوما کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ انیس دن بغیر اقامت کے اس طرح ٹھہرے کہ امروز فردا میں وہاں سے روانہ ہوجانے کا ارادہ فرماتے رہے مگر بلاقصد و ارادہ آپ ﷺ کا قیام وہاں انیس دن ہوگیا۔ مگر اس سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ نیتجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کہیں انیس دن ٹھہر جائے تو وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ ہاں انیس دن بعد اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا اس مسئلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس منفرد ہیں اور کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے۔ مدت اقامت کے سلسلے میں ابتداء باب میں تفصیل کے ساتھ مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اس موقع پر پھر جان لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کسی جگہ پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تو اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے بلکہ وہ پوری نماز پڑھے اور اگر کوئی آدمی پندرہ دن یا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قصر نماز پڑھے بلکہ اگر وہ اقامت کی نیت نہ کرے اور آج کل میں وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کرتا رہے اور اس طرح بلا قصد ارادہ اس کے قیام کا سلسلہ برسوں تک بھی دراز ہوجائے تب بھی وہ قصر نماز پڑھتا رہے امام طحاوی (رح) نے یہی مسئلہ جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ حضرت امام محمد نے کتاب الآثار میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر آزربائیجان میں چھ مہینے اس طرح ٹھہرے رہے کہ آج کل میں وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتے رہے مگر بلا قصد و ارادہ ان کا قیام اس قدر طویل ہوگیا چناچہ وہ اس مدت میں برابر قصر نماز پڑھتے رہے اس موقع پر دیگر صحابہ بھی ان کے ہمراہ تھے اسی طرح حضرت انس بھی مروان کے بیٹے عبدالملک کے ہمراہ شام میں دو مہینے تک بلا قصد ارادہ ٹھہرے رہے اور وہاں دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ اس مسئلے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جگہ علاوہ دو دن آنے اور جانے کے چار روز سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ مقیم ہوجاتا ہے اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے وہ پوری نماز پڑھے اسی طرح اقامت کی نیت کے بغیر امروز و فردا میں چلنے کا ارادہ کرتے کرتے بلا قصد و ارادہ اٹھارہ دن سے زیادہ ٹھہر جائے تو تب بھی اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا وہ پوری نماز پڑھے امام شافعی کی فقہ میں یہی معتمد اور صحیح قول ہے۔
Top