مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1008
وَعَنْ کُرَےْبٍص اَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍص وَالْمِسْوَرَ ابْنَ مَخْرَمَۃَص وَعَبْدَالرَّحْمٰنِ بْنَ الْاَزْھَرِ اَرْسَلُوْہُ اِلٰی عَآئِشَۃَ فَقَالُوْا اِقْرَأَ عَلَےْھَا السَّلَامَ وَسَلْھَا عَنِ الرَّکْعَتَےْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلٰی عَآئِشَۃَ فَبَلَّغْتُھَا مَا اَرْسَلُوْنِیْ فَقَالَتْ سَلْ اُمَّ سَلَمَۃَ فَخَرَجْتُ اِلَےْھِمْ فَرَدُّوْنِیْ اِلٰی اُمِّ سَلَمَۃَ فَقَالَتْ اُمُّ سَلَمَۃَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَنْھٰی عَنْھُمَا ثُمَّ رَاَےْتُہُ ےُصَلِّےْھِمَا ثُمَّ دَخَلَ فَاَرْسَلْتُ اِلَےْہِ الْجَارِےَۃَ فَقُلْتُ قُولِی لَہ، تَقُوْلُ اُمُّ سَلَمَۃَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعْتُکَ تَنْھٰی عَنْ ھَاتَیْنِ الرَّکْعَتَیْنِ وَاَرَاکَ تُصَلِّیْھِمَا قَالَ یا اِبْنَۃَ اَبِی اُمَیَّۃَ سَأَلْتِ عَن الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَاِنَّہُ اَتَانِی نَاسٌ مِنْ عَبْدِالْقَیْسِ فَشَغَلُونِی عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ بَعْدَ الظُّھْرِ فَہُمَا ھَاتَانِ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ کا عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا
اور حضرت کریب (حضرت عبداللہ ابن عباس کے خادم) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس، مسورابن مخرمہ اور عبدالرحمن ابن ازہر ؓ نے انہیں (یعنی کریب کو) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں بھیجا اور ان سے تینوں نے کہا کہ (ہمارے طرف سے) حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں سلام پیش کر کے ان سے عصر کے بعد دو رکعت نماز کے بارے میں پوچھنا کریب فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان تینوں نے جس پیغام کو پہنچانے کے لئے مجھے بھیجا تھا میں نے وہ پیغام ان تک پہنچا دیا حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ حضرت ام سلمہ ؓ ( کے پاس جاؤ اور ان) سے پوچھو میں (یہ جواب سن کر) ان تینوں صحابہ کرام کے پاس واپس لوٹ آیا، انہوں نے مجھے (پھر) حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس بھیجا، حضرت ام سلمہ ؓ نے (میرا سوال سن کر) فرمایا کہ میں نے سرور کونین ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں (کے پڑھنے) سے منع فرمایا کرتے تھے۔ پھر میں نے (ایک دن) دیکھا کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں کو پڑھتے ہیں۔ جب آپ ﷺ (ان دونوں رکعتوں کو مسجد میں پڑھ کر گھر میں یا باہر صحن میں پڑھ کر مکان کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے تو میں نے خادمہ کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور اس سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سے جا کر کہو کہ ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ ان دونوں رکعتوں ( کے پڑھنے) سے منع فرماتے تھے اور (اب) میں نے آپ ﷺ کو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے (اس کی کیا وجہ ہے) رسول اللہ ﷺ نے (خادمہ سے کہا کہ ام سلمہ ؓ سے جا کر کہو کہ) ابوامیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد دو رکعتوں کے (پڑھنے کے) بارے میں پوچھا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ (اسلامی تعلیمات اور احکام سیکھنے کی غرض سے) میرے پاس آئے تھے چناچہ (انہیں دینی احکامات بتانے کی مشغولیت میں) ظہر کے بعد کی میری دونوں رکعتیں رہ گئی تھیں انہیں کو میں نے عصر کے بعد پڑھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
سائلین کا مطلب یہ تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد نفل وغیرہ پڑھنے سے منع فرمایا تھا تو خود عصر کے بعد دو رکعت نماز کیوں پڑھی تھی چناچہ انہوں نے حضرت کریب کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی تحقیق کریں اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حقیقت حال معلوم کریں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ ؓ کا حوالہ دیا کہ ان سے معلوم کیا جائے، کیونکہ حضرت ام سلمہ ؓ اس بارے میں پوری طرح واقفیت رکھتی تھیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے اس عمل کے بارے میں پہلے ہی تحقیق کرلی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جب حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس جانے کو کہا تھا تو انہیں قاعدے میں حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس ہی جانا چاہیے تھا لیکن وہ بپ اس ادب پہلے ان تینوں صحابیوں کے پاس آئے جن کے پیغامبر بن کر وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس گئے تھے، جب ان صحابیوں نے انہیں حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس بھیجا تب وہ ان کے پاس گئے اور ان تینوں صحابیوں کا پیغام انہیں پہنچا کر حقیقت حال سے مطلع ہوئے۔ حضرت ام سلمہ ؓ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد جو دو رکعتوں سے منع فرماتے تھے تو ان دو رکعتوں سے آپ ﷺ کی مراد مطلقاً نفل نماز پڑھنا تھا اور اسی کے ضمن میں ان دونوں رکعتوں کی نہی بھی شامل تھی لیکن یہ بھی احتمال ہے۔ کہ آپ ﷺ نے ان دونوں رکعتوں ہی کے پڑھنے سے منع فرمایا ہو۔ ابوامیہ حضرت ام سلمہ ؓ کے والد کا نام تھا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے خادمہ سے فرمایا کہ ام سلمہ ؓ سے اس سوال کا جواب اس طرح دینا یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے براہ راست حضرت ام سلمہ کو جواب دیتے ہوئے ابوامیہ کی بیٹی! کہہ کر مخاطب فرمایا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علم دین کی تعلیم احکام شریعت کی تبلیغ اور اللہ کی مخلوق کی ہدایت کرنا نماز نفل پر مقدم ہے اگرچہ سنت غیر موکدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی فرض نماز کے بعد کی سنتوں کو موخر کیا اور پہلے وفد عبدالقیس کو دینی مسائل اور احکام شریعت کی تعلیم دی۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر نوافل وقتیہ فوت ہوجائیں تو انہیں دوسرے وقت قضا پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک میں نوافل وقتیہ کو صرف انہیں کے اوقات میں پڑھنا چاہیے غیر وقت میں ان کی قضاء نہیں ہے چناچہ ان کی جانب سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی فرض نماز کے بعد ہی سنت کی دونوں رکعتیں پڑھنی شروع کردی ہوں گی مگر وفد عبدالقیس کو علم دین کی تعلیم دینے کی ضرورت کی وجہ سے آپ ﷺ نے نماز توڑ دی ہوگی اس وجہ سے آپ ﷺ نے ان دونوں رکعتوں کی قضا عصر کی نماز کے بعد پڑھی۔ اس موقعہ پر اگر کہ کہا جائے کہ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھی تھی وہ دراصل ظہر کے فرض کے بعد کی سنتیں تھیں جو وفد عبدالقیس کے ساتھ تعلیم دین کی مشغولی کی بناء پر پڑھنے سے رہ گئی تھیں لیکن ان احادیث کا کیا جواب ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ہمیشہ ہی عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے چناچہ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کو اس دنیا سے اٹھایا آپ ﷺ نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں پڑھنا نہ چھوڑیں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے پروردگار سے ملاقات کی۔ اس قسم کی دیگر روایتیں بھی منقول ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا مکروہ ہے چناچہ جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے نیز امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں بھی ثابت ہے کہ وہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ایسے لوگوں کو مارتے بھی تھے جو عصر کے بعد نفل وغیرہ پڑھتے تھے۔ لہٰذا۔ اب یہی کیا جائے گا کہ اس ممانعت کے باوجود رسول اللہ ﷺ کا عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا دراصل آپ ﷺ کے خصائص میں سے تھا جیسا کہ آپ ﷺ صوم وصال (پے در پے روزے) رکھتے تھے مگر دوسروں کو اس سے منع فرماتے تھے۔
Top