مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1094
عَنْ عَمْرِوبْنِ سَلِمَۃَص قَالَ کُنَّا بِمَآءٍ مَمَرِّ النَّاسِ ےَمُرُّ بِنَاالرُّکْبَانُ نَسْاَلُھُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا ھٰذَا الرَّجُلُ فَےَقُوْلُوْنَ ےَزْعَمُ اَنَّ اللّٰہَ اَرْسَلَہُ اَوْحٰی اِلَےْہِ اَوْحٰی اِلَےْہِ کَذَا وَکُنْتُ اَحْفَظُ ذَالِکَ الْکَلَامَ فَکَاَنَّمَا ےُغَرّٰی فِیْ صَدْرِیْ وَکَانَتِ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِاِسْلَامِھِمْ الْفَتْحَ فَےَقُوْلُوْنَ اُ تْرُکُوْہُ وَقَوْمَہُ فَاِنَّہُ اِنْ ظَھَرَ عَلَےْھِمْ فَھُوَ نَبِیٌّ صَادِقٌ فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ الْفَتْحِ بَادَرَ کُلُّ قَوْمٍ بِاِسْلَامِھِمْ وَبَدَرَ اَبِیْ قَوْمِیْ بِاِسْلَامِھِمْ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُکُمْ وَاللّٰہِ مِنْ عِنْدِالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلمحَقًّا فَقَالَ صَلُّوْا صَلٰوۃَ کَذَا فِیْ حِےْنِ کَذَا وَصَلٰوۃَ کَذَا فِیْ حِےْنِ کَذَا فَاِذَا حَضُرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْےُؤَذِّن ْ اَحَدُکُمْ فَلْےَؤُمَّکُمْ اَکْثَرُکُمْ قُرْاٰنًا فَنَظَرُوْا فَلَمْ ےَکُنْ اَحَدٌ اَکْثَرُ قُرْاٰناً مِّنِّیْ لِمَا کُنْتُ اَتَلَقّٰی مِنَ الرُّکْبَانِ فَقَدَّمُوْنِیْ بَےْنَ اَےْدِےْھِمْ وَاَنَا ابْنُ سِتٍّ اَوْ سَبْعِ سِنِےْنَ وَکَانَتْ عَلَیَّ بُرْدَۃٌ کُنْتُ اِذَا سَجَدْتُّ تَقَلَّصَتْ عَنِّیْ فَقَالَتِ امْرَاَۃٌ مِّنَ الْحَیِّ اَلَّا تَغُطُّوْنَ عَنَّا اسْتَ قَارِئِکُمْ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوْا لِیْ قَمِےْصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَیءٍ فَرَحِیْ بِذَالِکَ الْقَمِےْصِ۔(صحیح البخاری)
نا بالغ کی امامت کا مسئلہ
حضرت عمرو ابن سلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم پانی کے کنارے رہتے تھے جو لوگوں کی گزر گاہ تھا قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ہم ان سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے واسطے (ایک آدمی یعنی رسول اللہ ﷺ نے جو دین نکالا ہے وہ) کیا ہے؟ اور اس آدمی (یعنی حضرت محمد ﷺ کی صفات کیا ہیں؟ وہ لوگ ہم سے بیان کرتے کہ وہ (رسول ﷺ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں (اپنا نبی برحق بنا) کر بھیجا ہے اور (قافلے کے لوگ قرآن کی آیتیں سنا کر کہا کرتے تھے کہ یہ) ان کے پاس وحی آتی ہے (اس طرح) ان کے پاس وحی آتی ہے چناچہ میں (رسول اللہ ﷺ کے اوصاف کو جو قافلے والے بیان کرتے تھے اور کلام کو) یعنی قافلے والے جو آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے ان کو اس طرح یاد کرلیتا تھا گویا وہ میرے سینے میں جم جاتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں مجھے خود یاد ہوجایا کرتی تھیں) اہل عرب (رسول اللہ ﷺ کی جماعت کے علاوہ) اسلام لانے کے سلسلے میں مکہ کے فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے (یعنی یہ کہتے تھے کہ اگر مکہ فتح ہوگیا تو ہم اسلام لائیں گے اور یہ) کہا کرتے تھے تھے ان (رسول ﷺ کو ان کی قوم پر چھوڑ دو اگر وہ اپنے لوگوں پر غالب آگئے اور مکہ کو فتح کرلیا) تو سمجھو کہ وہ سچے نبی ہیں (کیونکہ ان کی اس ظاہری بےسروسامانی اور مادی کمزوری کے باوجود اہل عرب پر غالب آجانا اور مکہ کو فتح کرلینا ان کا معجزہ ہوگا اور معجزہ صرف سچے نبی ہی سے صادر ہوسکتا ہے چناچہ جب اللہ نے اپنے دین کا بول بالا کیا اور مکہ فتح ہوگیا تو لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے میرے والد نے اپنی قوم پر پہل کی اور سب سے پہلے اسلام لے آئے جب وہ یعنی میرے والد لوٹ کر آئے تو اپنی قوم سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! میں سچے نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فلاں وقت میں ایسی ( اور اتنی) نماز پڑھو اور فلاں وقت میں ایسی (اور اتنی) نماز پڑھو (یعنی آپ نے نماز کی کیفیات اور اوقات بیان کئے) اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور تم میں سے جو آدمی قرآن زیادہ جاننے والا ہو وہ تمہاری امامت کرائے چناچہ جب نماز کا وقت آیا اور جماعت کی تیاری ہوئی تو لوگوں نے آپس میں دیکھا ( کہ امام کسے بنایا جائے! ) مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا جاننے والا نہیں تھا کیونکہ میں (پہلے ہی سے) قافلے والوں سے قرآن سیکھ رہا تھا چناچہ لوگوں نے مجھے آگے کردیا (اور نماز میں میری اقتداء کی) اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے بدن پر فقط ایک چادر تھی چناچہ جب میں سجدہ کرتا تو وہ چادر میرے بدن سے سرک جاتی تھی (اور کو لھے کھل جاتے تھے) قوم میں سے ایک عورت نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ ہمارے سامنے سے تم لوگ اپنے امام کی شرم گاہ کیوں نہیں ڈھانکتے؟ تب قوم نے کپڑا خریدا اور میرے لئے کرتہ بنوا دیا اس مرتبے کی وجہ سے مجھے جیسی خوشی ہوئی ایسی خوشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ (صحیح البخاری)

تشریح
عام طور پر سلمہ لام کے زبر کے ساتھ ہے مگر یہ عمرو جو قوم کے امام بنے تھے ان کے والد کے نام سلمہ میں لام زبر کے ساتھ ہے۔ اس کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ عمرو ابن سلمہ بھی اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے گئے یا نہیں؟ اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ صحابی نہیں یا ہیں؟ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد تنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے تھے یہ ان کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ حضرت امام شافعی (رح) لڑکے کی امامت کے جواز میں اسی حدیث سے استدالال کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی امامت جائز ہے البتہ جمعے کی نماز میں نابالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ جمعے کی نماز میں بھی لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور دوسرے قول سے عدم جواز کا اثبات ہوتا ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے البتہ نفل نماز کے سلسلہ میں علماء حنفیہ کے ہاں اختلاف ہے چناچہ بلح کے مشائخ نماز میں نابالغ لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور اسی پر ان کا عمل ہے نیز مصر اور شام میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے ان کے علاوہ دیگر علماء نے نفل نماز میں بھی نابالغ لڑکے کی امامت کو ناجائز قرار دیا ہے چناچہ علماء ماوراء النہر کا عمل اسی پر ہے۔ زیلعی نے شرح کنز میں اس مسئلے کے متعلق کہا ہے کہ امام شافعی نے اس مسئلے میں کہ نابالغ لڑکے کی امامت جائز ہے حضرت عمرو ابن سلمہ کے اس قول فقد مونی الخ سے استدلال کیا ہے لیکن ہمارے (یعنی حنیفہ کے) نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کے اس قول کی روشنی میں کہ وہ لڑکا جس پر حدود واجب نہیں ہوئی امامت نہ کرے نابالغ لڑکے کی امامت جائز نہیں ہے اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا قول بھی یہی ہے کہ لڑکا جب تک محتلم (یعنی بالغ) نہ ہوجائے امامت نہ کرے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا نابالغ لڑکے کی اقتداء کرے جہاں تک عمرو ابن سلمہ کی امامت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کی امامت رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بنا پر نہیں تھی بلکہ یہ ان کی قوم کے لوگوں کے اپنے اجتہاد تھا کہ عمرو چونکہ قافلے کے لوگوں سے قرآن کریم سیکھ چکے تھے اس لئے ان کو امام بنادیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرات شوافع حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق ؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اقوال سے تو استدلال نہیں کرتے۔ ایک نابالغ لڑکے (عمرو ابن سلمہ) کے فعل کو مستدل بناتے ہیں۔
Top