مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1155
و َعَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ اِنَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَتٰی مَسْجِدَ بَنِی عَبْدِالْاَشْھَلِ فَصَلَّی فِیْہِ الْمَغْرِبَ فَلَمَّا قَضُوْا صَلَا تَھُمْ رَاَھُمْ یُسَبِّحُوْنَ بَعْدَ ھَا فَقَالَ ھٰذِہٖ صَلَاۃُ الْبُیُوْتِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَفِی رِوَایَۃِ التِّرْمِذِیِّ وَالنِّسَائِیِّ قَامَ نَاسٌ یُصَلُّوْنَ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَیْکُمْ بِھَذِہِ الصَّلَاۃِ فِی الْبُیُوْتِ۔
نوافل گھروں میں ادا کئے جائیں
اور حضرت کعب ابن عجرہ ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ ﷺ (انصار کے ایک قبیلے) بنی عبد الاشہل کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مغرب کی (فرض اور سنت) نماز پڑھی، جب (بعض) لوگ (اپنی فرض) نماز پڑھ چکے تو آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد نفل نماز (یعنی مغرب کی سنتیں بھی وہیں) پڑھ رہے ہیں رسول اللہ ﷺ نے (دیکھ کر) فرمایا کہ یہ (یعنی مغرب کی سنت یا مطلقا نفل نماز) گھر میں پڑھنے کی ہے۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی و سنن نسائی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب لوگ (فرض نماز کے بعد) نفل پڑھنے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ یہ نماز (اپنے اپنے) گھروں میں پڑھو۔

تشریح
حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ نفل نماز خواہ وہ سنت مؤ کدہ ہو یا غیر مؤ کدہ گھر میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ گھر میں نوافل نماز پڑھنے والا ریا و نمائش سے دور اور اخلاص و صدق کے قریب تر ہوتا ہے بلکہ اس سے گھروں میں رحمت الٰہی اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔ ویسے جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسجد میں نفل نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے مسجد اور گھر کے پڑھنے میں صرف افضلیت اور غیر افضلیت کا فرق ہے۔ لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ گھروں میں نفل نماز پڑھنے کا یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو فرض نماز کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں جو لوگ فرض کی ادائیگی کے بعد گھر نہیں جاتے جیسے مسجد کے اندر اعتکاف میں بیٹھنے والے تو وہ مسجد ہی میں نوافل پڑھ لیں۔ بہر حال فرض نماز کے علاوہ نفل نمازیں گھر جا کر پڑھنا افضل ہیں چناچہ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہی تھا کہ آپ فرض مسجد میں پڑھ کر حجرہ مبارک میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں فوافل پڑھتے تھے۔ ہاں کسی خاص عذر اور سبب کی بات تو الگ ہے کہ ایسے موقع پر مسجد ہی میں نوافل بھی پڑھ لیتے تھے۔ پھر بھی مغرب کی سنتیں گھر میں پڑھنے کا اہتمام تو آپ ﷺ بطور خاص فرماتے تھے اور اکثر گھر ہی میں پڑھتے تھے یہی وجہ ہے کہ مغرب کی سنتوں کے بارے میں بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی مغرب کی نماز سنت مسجد میں پڑھے تو وہ مسنون ادا نہیں ہوتی بلکہ بعض علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ مگر جمہور علماء کی رائے ہے کہ گنہگار نہیں ہوتا کیونکہ انہیں گھر میں ادا کرنے کا حکم امر وجوبی نہیں ہے بلکہ امر استحبابی ہے۔ ہدایہ کے حاشیہ میں جامع صغیر سے منقول ہے کہ کوئی آدمی مغرب کی نماز مسجد میں پڑھے اور اس کو یہ خوف ہو کہ اگر گھر میں گیا تو کسی مشغولیت کی بناء پر سنت وہاں نہیں پڑھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ مغرب کی سنتیں بھی مسجد کے صحن میں پڑھ لے اور اگر گھر پہنچ کر کسی کام میں مشغول ہوجانے کا خوف نہ ہو تو افضل یہی ہے کہ وہ گھر جا کر نماز سنت پڑھے۔
Top