مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1158
وَعَنْ حُذَیْفَۃَ نَحْوَہُ وَزَادَ فَکَانَ یَقُوْلُ عَجِّلُو الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فَاِنَّھُمَا تُرْفَعَانِ مَعَ الْمَکْتُوْبَۃِ رَوَاھُمَا رَزِیْنُ وَرَوَی البَیْھِقِیُّ الزِّیَادَۃَ عَنْہ، نَحْوَھَا فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔
فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے
اور حضرت حذیفہ ؓ سے (بھی) اسی طرح (یعنی اوپر والی حدیث) مروی ہے لیکن ان کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ تم لوگ مغرب کے بعد دو رکعت (سنتیں جلدی پڑھ لیا کرو کیونکہ وہ (دونوں رکعتیں) فرضوں کے ساتھ اوپر (علیین میں) پہنچائی جاتی ہیں، یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں اور بیہقی نے حذیفہ کے زائد الفاظ کو اسی طرح شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں چونکہ فرض نماز کے ساتھ مقام علیین میں پہچائی جاتی ہیں اس لئے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں اور ظاہر یہ ہے کہ ان اوارد و اذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہوچکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد وذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد و ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ پیچھے باب الذکر بعد الصلوۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں۔ تو اب اگر ان اور اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیش نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو اس احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فورا بعد پڑھنے کا حکم) کے خلاف نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کے علاوہ یہاں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث ہی سے ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھے اور اس کا گھر بھی مسجد سے دور ہو تو ظاہر ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی نہیں ہوسکتی۔ تو اس صورت میں کیا جائے۔ آیا ان احادیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کو گھر ہی میں جا کر پڑھا جائے تاکہ گھر میں پڑھنے کی فضیلت حاصل ہو یا اس حدیث کے پیش نظر مسجد ہی میں پڑھا جائے تاکہ ان کو جلدی پڑھ لینے کی فضیلت حاصل ہوجائے؟۔ اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت چونکہ بہت زیادہ ہے اور پھر یہ کہ اس کی تاکید بھی بہت زیادہ کی گئی ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ سنتوں کو گھر ہی میں پڑھا جائے۔ وا اللہ اعلم۔
Top