مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1194
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَعْقِدُ الشَّےْطَانُ عَلٰی قَافِےَۃِ رَاْسِ اَحَدِکُمْ اِذَا ھُوَ نَامَ ثَلٰثَ عُقَدٍ ےَّضْرِبُ عَلٰی کُلِّ عُقْدَۃٍ عَلَےْکَ لَےْلٌ طَوِےْلٌ فَارْقُدْ فَاِنِ اسْتَےْقَظَ فَذَکَرَ اللّٰہَ انْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ فَاِنْ تَوَضَّأَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ فَاِنْ صَلّٰی اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ فَاَصْبَحَ نَشِےْطًا طَےِّبَ النَّفْسِ وَاِلَّا اَصْبَحَ خَبِےْثَ النَّفْسِ کَسْلَانَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رات کو عبادت خداوندی سے روکنے کے لئے شیطان کی مکاریاں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کو) سوتا ہے تو شیطان مردود اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر (یہ کہہ کر) مارتا ہے (یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے) کہ ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ لہٰذا اگر کوئی آدمی (شیطان کے اس مکر میں نہیں آتا اور عبادت الہٰی کے لئے) جاگتا ہے اور (دل میں ہی یا زبان سے) اللہ کو یاد کرتا ہے تو (غفلت و سستی کی) ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو (نجاست کی) دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اس کے بعد جب نماز پڑھتا ہے تو (کسالت و بطالت کی) تیسری گرہ (بھی کھل جاتی ہے چناچہ ایسا آدمی شادماں اور پاک نفس صبح کرتا ہے ورنہ وہ (جو آدمی نہ جاگتا ہے نہ ذکر کرتا ہے اور نہ وضو کر کے نماز ہی پڑھتا ہے تو وہ) کاہل اور پلید نفس صبح کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
گرہ کے معنی و مراد کے تعین میں اختلاف ہے ابن مالک کا قول یہ ہے کہ گرہ سے مراد کسل و سستی کی گرہ ہے یعنی شیطان اپنی مکاریوں کے ساتھ رات کو عبادت الٰہی کے لئے اٹھنے والوں کے کسل و سستی کا باعث ہوتا ہے۔ میرک شاہ کے قول کے مطابق بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پر محمول ہے یعنی شیطان مردود واقعی سونے والے کی گدی پر گرہ لگا دیتا ہے جیسا کہ جادوگر جادو کرتے وقت کسی پر گرہ لگاتے ہیں اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں منقول ہے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ مجاز پر محمول ہے گویا گرہ لگانا جو ساحر کا فعل ہے کہ وہ اس کے ذریعے مسحور کو اس کی مراد سے روک دیتا ہے اس کے ساتھ سونے والے کو رات کو نماز پڑھنے اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے سے شیطان کے روکنے کو مشابہت دی گئی ہے۔ یعنی جس طرح ایک ساحر سحر کے وقت کسی پر گرہ لگا کر اس کو اس کے مقاصد سے روک دیتے ہیں بائیں طور کہ مسحور کی عملی قوتیں مفلوج ہوجاتی ہیں اسی طرح شیطان رات کو سونے والوں کو اپنی مکاریوں کے ذریعے اللہ کے ذکر اور نماز میں مشغول ہونے کے لئے اٹھنے سے روک دیتا ہے۔ کچھ علماء کا قول یہ ہے کہ اس سے مراددل کی گرہ اور شیطان کی طرف سے سونے والے کو ایک چیز پر مصمم اور قائم کرنا ہے یعنی شیطان سونے والے کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے اور اس بات کا اسے یقین دلاتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے، سوتا رہ، لہٰذا بندہ شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بیدار ہو کر نماز پڑھنے سے رک جاتا ہے۔ حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو شیطان کے مکر و فریب میں نہیں پھنستا اور اس کے بہکا وے میں نہیں آتا بلکہ وہ وقت پر اٹھ کر نماز تہجد اور ذکر اللہ میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کے لئے صبح اپنی جلو میں شادمانی و خوش نصیبی اور نفس کی پاکی و پاکیزگی کی سعادتیں لئے ہوئے آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے اور اس کا دل و دماغ ہر قسم کے خوف و خطر سے لا پروا ہو کر دین و دنیا کے امور میں اطمینان سے لگا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف جو آدمی رات کو شیطان کی عیاریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے مکر کے جال میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ رات کو اٹھ کر ذکر اللہ کرتا ہے اور نہ ہی نماز تہجد میں مشغول ہوتا ہے بلکہ سویا رہتا ہے تو اس کے لئے صبح اپنے دامن میں کسالت و بطالت و غفلت و پلید نفسی کے غلیظ ڈھر لے کر آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن پلید نفس، غمگین دل، متفکر اور اپنے امور کی انجام دہی میں حیران و پریشان اور کسل مند رہتا ہے یعنی سستی و غفلت کی وجہ سے وہ اپنے جس کام کو بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس میں ناکام اور بددل رہتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے مکر و فریب کے جال میں مقید اور قرب الٰہی کی رحمتوں سے دور ہوتا ہے۔
Top