مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1198
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَےْلَۃٍ اِلَی السَّمَآءِ الدُّنْےَا حِےْنَ ےَبْقٰی ثُلُثُ اللَّےْلِ الْاٰخِرُ ےَقُوْلُ مَنْ ےَّدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِےْبَ لَہُ مَنْ ےَّسْاَلُنِیْ فَاُعْطِےَہُ مَنْ ےَسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرَلَہُ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمِ ثُمَّ ےَبْسُطُ ےَدَےْہِ ےَقُوْلُ مَنْ ےُّقْرِضُ غَےْرَ عَدُوْمٍ وَّلَا ظَلُوْمٍ حَتّٰی ےَنْفَجِرَ الْفَجْرُ۔
رحمت خداوندی کے نزول کا وقت
اور حضر ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا ہر رات کو آخر انتہائی رات کے وقت ہمارا بزرگ و برتر پروردگار دنیا کے آسمان (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے قبولیت بخشوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہو اور میں اسے بخشوں؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر اللہ جل شانہ اپنے (لطف و رحمت کے) دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو ایسے کو قرض دے جو نہ فقیر ہے اور نہ ظلم کرنے والا ہے اور صبح تک یہی فرماتا رہتا ہے۔

تشریح
یَنْزِلُ رَبَّنَا (ہمارا رب نزول فرماتا ہے) کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ جل شانہ خود آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے کیونکہ وہ جسم کی ثقالت و کثافت سے پاک و صاف ہے اور ایسا نور ہے جو ہمہ وقت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط و حاوی ہے اور کسی خاص مقام و کسی وقت کا پابند نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اس کی تاویل کرتے ہوئے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ جل شانہ کا فرمان، اس کی رحمت یا اس کی ملائکہ اس وقت آسمان دنیا پر اترتے ہیں (ا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ اعلان کرتے ہیں) چناچہ اس کی تائید ایک حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں مذکور ہے، یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ ارشاد متشابہات میں سے ہے جس کے حقیقی معنی و مطلب اللہ جل شانہ ہی جانتے ہیں۔ مَنْ یَّدْ عُوْنِی دعا کے معنی ہیں پکارنا جیسا کہ بندہ کہے یا رب اس کے مقابلے پر اجابت اور قبولیت ہوتی ہے جیسے کہ پروردگار بندے کے اس پکارنے کے جواب میں کہے لبیک عبدی مَنْ یَّسْاَلَنِیْ سوال کے معنی کسی کا مانگنا اور اس کا طلب کرنا اور اس کے مقابلے میں سوال کا پورا کرنا ہے یعنی جو چیز طلب کی جائے اور مانگی جائے اس کا دینا۔ یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اللہ جل شانہ (آسمان دنیا پر) اس وقت نزول فرماتا ہے جب اول تہائی رات گذر جاتی ہے نیز اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ اس وقت نزول فرماتا ہے جب آدھی رات یا دو تہائی رات گذرتی ہے کیونکہ احتمال ہے کہ بعض صورتوں میں تو نزول آخری تہائی رات کے وقت، بعض راتوں کو اول تہائی رات کے گذرنے کے بعد اور بعض راتوں کو آدھی یا دو تہائی رات گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ مَنْ یُّقْرِضُ کون ہے جو قرض دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو بطریق قرض اور جزا لینے کے لئے بدنی اور مالی عبادت اللہ جل شانہ کو دے جو نہ تو فقیر ہے اور نہ عطا و بخشش سے عاجز ہے نیز یہ کہ نہ ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے عہد کو پورا نہ کرے یا ناقص ثواب دے۔ یعنی اس پیرائے سے مسلمانوں کو دنیا میں نیک و صالح عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ کون خوش نصیب اور با سعادت مسلمان ہے جو آخرت کی سعادتوں و راحتوں اور وہاں کے ثواب کی امید میں اس غنی پروردگار کے لئے دنیا میں نیک عمل کرے جو اس کے حق یعنی آخرت میں دنیا کے نیک عمل کا ثواب دینے سے عاجز نہیں ہے اور کون خوش نصیب وسعادت مند مومن ہے جو اس عادل اللہ کے لئے دنیا میں نیک عمل کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کا ثواب اس کے عمل سے بھی کئی گنا زیادہ کر کے دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ یہاں اللہ جل شانہ کی تعریف بایں طور کی گئی ہے اس کی پاک ذات سے ان دونوں صفات یعنی فقر اور ظلم کی نفی کی گئی ہے کیونکہ قرض کی واپسی کے سلسلے میں یہی دونوں صفتیں حائل ہوتی ہے۔ اگر کوئی عاجز و فقیر ہوتا ہے تو وہ قرض کی واپسی سے معذور ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ظالم ہوتا ہے تو اپنے ظلم کی بنا پر قرض کی پوری ادائیگی نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی و نقصان کر کے واپس کردیتا ہے اور اللہ جل شانہ کی ذات ان دونوں صفتوں سے پاک ہے۔ نہ تو وہ ظالم ہے اور نہ عاجز فقیر ہے بلکہ عادل ہے اور غنی ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی دنیا میں بھلائی کرے گا اور نیک عمل کرے گا وہ اللہ جل شانہ کے پاس عقبی میں کامل جزاء اور ثواب پائے گا۔
Top