مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1208
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ص قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا عَبْدَاللّٰہِ لَا تَکُنْ مِّثْلَ فُلاَنٍ کَانَ ےَقُوْمُ مِنَ اللَّےْلِ فَتَرَکَ قِےَامَ اللَّےْلِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نماز تہجد کو ترک کرنے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے (ایک روز) مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ (دیکھو) فلاں آدمی کی طرح نہ ہوجانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا (یعنی تہجد کی نماز پڑھتا تھا) پھر بعد میں رات کے قیام کو اس نے چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
کوئی صحابی ہوں گے جو پہلے تو تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے مگر پھر بعد میں بغیر کسی عذر کے محض نفس کی خواہش میں مبتلا ہو کر اس عظیم سعادت سے کنارہ کشی کر بیٹھے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو متنبہ فرمایا کہ دیکھو کہیں تم بھی انہیں کی طرح نماز تہجد کو چھوڑ کر فریب نفس میں مبتلا نہ ہوجانا کیونکہ ایسے لوگ جو نیک عمل کی عادت اور اپنے معمولات دینی کو بغیر کسی عذر و مجبوری کے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے سلسلے میں داخل ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تَارِکُ الْوِرْدِ مَلْعُونٌ (یعنی معمولات دینی کو چھوڑنے والا ملعون ہے)۔ گویا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت الٰہی کو ترک کردینا اور عادت یعنی نفسانیت کے غلط راستے کی طرف لوٹنا درحقیقت سعادت مندی اور صلاح و فلاح میں زیادتی کے بعد نقصان کا واقع ہوجانا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے بایں طور پناہ مانگی ہے کہ نعوذ باللہ من الحور بعد الکور (یعنی ہم زیادتی کے بعد نقصان کے واقع ہوجانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ لہٰذا راہ طریق و شریعت کے سالک کو چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی عبادت الٰہی اور ذکر اللہ کی عادت کو ترک نہ کرے اور اس میں کمی نہ اختیار کرے بلکہ ان میں زیادتی ہی کا طالب رہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے جو آدمی زیادتی کا طالب نہیں ہے وہ نقصان کے راستے پر ہے۔
Top