مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1218
وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خُذُوْا مِنَ الْاَعْمَالِ مَا تُطِےْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا ےَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
بساط سے باہر عبادت نہیں کرنی چاہیے
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تم اسی قدر عمل کیا کرو جتنی کہ (ہمیشہ) کرنے کی طاقت رکھتے ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے میں) تنگی نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود تنگی نہ کرو (یعنی تنگ آکر عبادت ہی نہ چھوڑ دو )۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنے لئے اتنی زیادہ عبادت ضروری قرار نہ دے دو جسے تم ہمیشہ نباہنے کی طاقت نہ رکھتے ہو بلکہ اسی قدر عبادت کرو کہ جتنی تم ہمیشہ پابندی کے ساتھ کرسکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے میں تنگی نہیں کرتا یعنی ثواب دینا ترک نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کی زیادتی سے پریشان ہو کر سرے سے عبادت ہی نہ چھوڑ دو۔ حاصل یہ کہ اللہ جل شانہ عبادت کرنے والے کو ثواب دئیے جاتا ہے ہاں اگر کوئی آدمی زیادتی کے سبب تھک کر عبادت چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ثواب دینا بھی چھوڑ دیتا ہے لہٰذا عبادت کے معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہمیشہ عبادت جاری رہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا سلسلہ بھی قائم رہے
Top