مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 703
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ جَآءَ مَسْجِدِی ھٰذَا لَمْ یَاْتِ اِلَّالِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُہُ اَوْ یُعَلِمُہ، فَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَاھِدِ فِی سَبِیْلِ اﷲِ وَ مَنْ جَآءَ لِغَیْرِ ذٰلِکَ فَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ الرَّجُلِ یَنْظُرُ اِلَی مَتَاعِ غَیْرِہٖ۔ (رواہ ابن ماجۃ والبیھقی شعب الایمان)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی میری اس مسجد میں محض اس غرض سے آئے کہ نیک کام سیکھے اور سکھلائے تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہم رتبہ ہے اور جو آدمی اس غرض سے نہ آئے (یعنی کسی برے کام مثلاً لہو و لعب کی نیت سے آئے) تو وہ اس آدمی کی مانند ہے جو دوسرے کے اسباب (کو حسرت کی نگاہوں) سے دیکھتا ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

تشریح
آپ ﷺ نے اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کی تخصیص کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ میری مسجد اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ وارفع ہے اور دوسری مسجدیں چونکہ اس کے تابع ہیں اس لئے مذکورہ حکم تمام مساجد کے لئے یکساں ہے۔ نیک کام کو سیکھنے اور سکھلانے کی تخصیص صرف ان کی فضیلت و اہمیت کے اظہار کے طور پر ہے ورنہ تو نماز، اعتکاف اور تلاوت و ذکر سب کا یہی حکم ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں نیک مقصد کے تحت نہیں آئے گا اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے پاس کوئی چیز نہ تو وہ اس چیز کو کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر حسرت و افسوس کا اظہار کرتا ہے چناچہ یہ آدمی بھی جب آخرت میں اس آدمی کے ثواب کو جو نیک مقصد اور نیک نیت کے ساتھ مسجد آیا تھا دیکھے گا اور اسے معلوم ہوجائے گا کہ مسجد تو سعادت و بھلائی کے حصول کی جگہ تھی تو وہ انتہائی رنج و حسرت میں مبتلا ہوجائے گا کہ میں کیوں اس دولت سے محروم رہا۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح کسی غیر آدمی کے پاس کوئی چیز دیکھ کر اسے بری نگاہ سے (یعنی اچک لینے کی نیت سے) دیکھنا منع ہے اس طرح مسجد میں بغیر نیک کام کی نیت آنا بھی منع ہے۔
Top