مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 755
عَنْ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِےْرِ وَالْقِرَاءَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِےْنَ وَ کَانَ اِذَا رَکَعَ لَمْ ےُشْخِصْ رَاْسَہُ وَلَمْ ےُصَوِّبْہُ وَلٰکِنْ بَےْنَ ذٰلِکَ وَکَانَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ لَمْ ےَسْجُدْ حَتّٰی ےَسْتَوِیَ قَائِمًا وَّکَانَ اِذَا رَفَعَ رَاسَہُ مِنَ السَّجْدَۃِ لَمْ ےَسْجُدْ حَتّٰی ےَسْتَوِیَ جَالِسًا وَّکَانَ ےَقُوْلُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَےْنِ التَّحِےَّۃَ وَکَانَ ےَفْرِشُ رِجْلَہُ الْےُسْرٰی وَےَنْصِبُ رِجْلَہُ الْےُمْنٰی وَکَانَ ےَنْھٰی عَنْ عُقْبَۃِ الشَّےْطَانِ وَےَنْھٰی اَنْ ےَّفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَےْہِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ وَکَانَ ےَخْتِمُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّسْلِےْمِ۔ (صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نماز تو تکبیر سے اور قرأت الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے اور آپ جب رکوع کرتے تھے تو اپنا سر مبارک نہ تو (بہت زیادہ) بلند کرتے تھے اور نہ (بہت زیادہ) پست بلکہ درمیان درمیان رکھتے تھے (یعنی پیٹھ اور گردن برابر رکھتے تھے) اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا کھڑے ہوئے سجدے میں نہ جاتے تھے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا بیٹھے ہوئے (دوسرے) سجدہ میں نہ جاتے تھے اور ہر دور رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور (اور بیٹھنے کے لئے) اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے اور آپ عقبہ شیطان (یعنی شیطان کی بیٹھک) سے منع فرماتے تھے اور مرد کو دونوں ہاتھ سجدے میں اس طرح بچھانے سے بھی منع کرتے تھے جس طرح درندے بچھا لیتے ہیں اور آپ ﷺ نماز کو سلام پر ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تو تکبیر سے شروع فرماتے تھے اور قرأت کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ ﷺ بسم اللہ آہستہ سے پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت امام اعظم (رح) کا مسلک بھی یہی ہے۔ قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ اور اس میں آئمہ کا اختلاف وکان یفرش رجلہ ایسر وینصب رجلہ الیمنی (یعنی آپ ﷺ بیٹھنے کے لئے اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے) اس عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھتے تھے چناچہ حضرت امام اعظم (رح) کا یہی مسلک ہے کہ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھنا چاہئے۔ آئندہ آنے والی حدیث جو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے منقول ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ پہلے قعدے میں افتراش (یعنی پاوئوں بچھانا ہی اختیار کرتے تھے مگر دوسرے قعدے میں تورک یعنی (کولہوں پر بیٹھنا) اختیار فرماتے تھے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے کہ پہلے قعدے میں تو افتراش ہونا چاہئے اور دوسرے قعدے میں تورک۔ حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک دونوں قعدوں میں تورک ہی ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جس نماز میں دو تشہد ہوں اس کے آخری تشہد میں تورک ہونا چاہئے اور جس نماز میں ایک ہی تشہد ہے اس میں افتراش ہونا چاہئے۔ امام اعظم (رح) کے مسلک کی دلیل بنیادی طور پر حضرت امام اعظم (رح) کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے نہ صرف یہی حدیث بلکہ اور بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں مطلقاً پاؤں کے بچھانے کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی وارد ہے کہ تشہد میں سنت یہی ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ بغیر پہلے اور دوسرے قعدے کی قید کے تشہد میں اسی طرح بیٹھا کرتے تھے۔ پھر دوسری چیز یہ بھی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کا جو طریقہ امام اعظم نے اختیار کیا ہے وہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ بامشقت اور مشکل ہے اور احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اعمال میں زیادہ افضل و اعلیٰ عمل وہی ہے جس کے کرنے میں مشقت اور مشکل ہے۔ جن احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ دوسرے قعدے میں کو لہوں پر بیٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی (رح) کا مسلک ہے وہ اس بات پر مجمول ہے کہ رسول اللہ ﷺ حالت ضعف اور کبر سنی میں اس طرح بیٹھتے تھے کیونکہ دوسرے قعدے میں زیادہ دیر تک بیٹھنا ہوتا ہے اور کو لہوں پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے۔ عقبہ شیطان کا مطلب عقبہ شیطان دراصل ایک خاص طریقے سے بیٹھنے کا نام ہے جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دونوں کو ل ہے زمین پر ٹیک کر دونوں پنڈلیاں کھڑی کرلی جائیں پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر بیٹھا جائے جس طرح کے کتے بیٹھا کرتے ہیں۔ قعدے میں بیٹھنے کا یہ طریقہ اختیار کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ عقبہ شیطان کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو ل ہے دونوں ایڑیوں پر رکھے جائیں۔ یہ معنی لفظ عقبہ کی رعایت سے زیادہ مناسب ہیں۔ آپ ﷺ نے مرد کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ سجدہ کی حالت میں زمین پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح بچھائے جس طرح درندے یعنی کتے وغیرہ بچھاتے ہیں اس سلسلے میں مرد کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ کے وقت عورتوں کو اس طرح ہی دونوں ہاتھ بچھانے چاہیں کیونکہ اس طرح عورت کے جسم کی نمائش نہیں ہوتی۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ ﷺ نماز کا اختتام سلام پر فرماتے تھے۔ مگر اتنی بات سن لیجئے کہ نماز میں سلام پھیرنا حنفیہ کے نزدیک تو واجب ہے مگر حضرت شوافع کے نزدیک فرض ہے۔
Top