مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 761
عَنْ وَّائِلِ بْنِ حُجْرٍ ص اَنَّہُ رَاَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلمرَفَعَ ےَدَےْہِ حِےْنَ دَخَلَ فِی الصَّلٰوۃِ کَبَّرَ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِہٖ ثُمَّ وَضَعَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی عَلَی الْےُسْرٰی فَلَمَّا اَرَادَ اَنْ ےَرْکَعَ اَخْرَجَ ےَدَےْہِ مِنَ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَھُمَا وَکَبَّرَ فَرَکَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَفَعَ ےَدَےْہِ فَلَمَّا سَجَدَ سَجَدَبَےْنَ کَفَّےْہِ۔(صحیح مسلم)
تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں
اور حضرت وائل ابن حجر ( حضرت وائل بن حجر حضرمی ؓ ہیں۔ حضرموت کے شمار کردہ رئیسوں میں سے ہیں۔ جب یہ اپنے قبیلے کی طرف سے ایلچی بن کر آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اپنی چارد مبارک زمین پر بچھا دی اور ان کو اس پر بٹھایا۔ پھر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ علقمہ اور عبدالجبار ان کے صاحبزادے ہیں) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی پھر ہاتھ کپڑے کے اندر کر لئے اور داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھ کپڑے سے نکال کر ان کو اٹھایا اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور جب (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو (اس وقت بھی) ہاتھوں کو اٹھایا پھر جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کے درمیان کیا (یعنی اپنا سر مبارک دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے بعد اپنے دونوں دست مبارک چادر میں ڈھانک لئے اور نیت باندھ لی مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے چادر میں ہاتھ نہیں ڈھانکے بلکہ اپنی آستینوں میں چھپا لئے۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کپڑوں میں جو چھپائے تھے تو اس کی وجہ غالباً سردی کی شدت ہوگی۔ تکبیر تحریمہ کے بعد داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا یوں تو تمام ائمہ کے نزدیک ایک مسئلہ ہے لیکن حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک چھوڑنے رکھنا اولی ہے اور باندھنا بھی جائز ہے۔ اس بارے میں آئمہ کے ہاں اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا چاہئے اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ سینے کے قریب یعنی ناف کے اوپر باندھنے چاہئیں۔ دونوں حضرات کے مطابق حدیثیں وارد ہیں چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حکم یہی ہے کہ جہاں چاہے ہاتھ باندھ لے درست ہوگا لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے میں کوئی خاص طریقہ چونکہ احادیث کے ذریعے چونکہ مستحسن نہیں تھا یعنی نہ تو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا طریقہ خاص طور پر ثابت ہے نہ ناف کے نیچے بلکہ دونوں طریقے احادیث کے ذریعہ ثابت ہیں تو حضرت امام اعظم نے ان دونوں صورتوں میں اس صورت کو اختیار کیا جو ادب اور تعظیم کے سلسلہ میں مقرر و متعارف ہے اور وہ ناف کے نیچے باندھنا ہے کیونکہ انتہائی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کے موقع پر ہاتھ ناف کے نیچے ہی باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔
Top