مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 793
وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدِنِ الْخُدْرِیِّص قَالَ کُنَّانَحْزُرُ قِےَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فَحَزَرْنَا قِےَامَہُ فِی الرَّکْعَتَےْنِ الْاُوْلَےَےْنِ مِنَ الظُّہْرِ قَدْرَ قِرْآءَ ۃِ آلۤمّ تَنْزِےْلُ السَّجْدَۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ قَدْرَ ثلٰثِےْنَ اٰےَۃً وَّحَزَرْنَا قِےَامَہُ فِی الْاُخْرَےَےْنِ قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَالِکَ وَّحَزَرْنَا فِیْ الرَّکْعَتَےْنِ الْاُوْلَےَےْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلٰی قَدْرِ قِےَامِہٖ فِی الْاُخْرَےَےْنِ مِنَ الظُّھْرِ وَفِی الْاُخْرَےَےْنِ مِنَ الْعَصْرِ عَلَی النِّصْفِ مِنْ ذَالِکَ۔ (صحیح مسلم)
نماز میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کی مقدار
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر کی نماز میں آقائے نامدار ﷺ کے قیام (کی مقدار) کا اندازہ کرتے، چناچہ ہم نے اندازہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں الم تنزیل السجدہ پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہر رکعت میں تیس آیتیں پڑھنے کے بقدر قیام کرتے تھے اور (ظہر کی) آخری دو رکعتوں میں اس کے نصف کے بقدر قیام کا ہم نے اندازہ کیا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
الم تنزیل السجدہ کے بقدر کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں آپ ﷺ کے مجموعی قیام کی مقدار سورت الم تنزیل السجدہ ہوتی تھی یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ہر رکعت میں الم السجدہ پڑھنے کے بقدر قرأت کرتے تھے اس آخری مطلب کی تائید دوسری روایت بھی کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر قرأت کرتے تھے اور الم تنزیل السجدہ میں انتیس آیتیں ہیں، اگر پہلے مطلب کو صحیح مانا جائے تو یہ دوسری روایت کے خلاف ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ یہ کہا جائے کہ آپ ﷺ ہر رکعت میں سورت ا الم تنزیل السجدہ کی بقدار قرأت کرتے تھے۔ آخری رکعتوں میں قرأت کا مسئلہ حدیث کی ان الفاظ و حزرنا قیامہ فی الا خرین یعنی (ظہر) کی آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کا ہم نے انداز کیا ہے۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی آخری دونوں رکعتوں میں بھی سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت جو پہلی دونوں رکعتوں کی سورتوں سے مختصر ہوتی تھی پڑھتے تھے چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک قول جدید کے مطابق یہی ہے لیکن ان کے ہاں فتوے ان کے قول قدیم پر ہے جو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فعل سنت پر محمول نہیں بلکہ بیان جواز پر محمول ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کبھی کبھی کوئی اور سورت بھی ملا کر قرأت کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اس طرح پڑھنا بھی جائز ہے لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھنا ہی سنت ہے بلکہ حنفیہ کا کہنا تو یہ کہ اگر کوئی آدمی سورت فاتحہ بھی نہ پڑھے بلکہ صرف تسبیح (یعنی سبحان اللہ وغیرہ کہہ لے تو بھی جائز ہے لیکن قرأت افضل ہے، امام نخعی، امام ثوری اور کوفہ کے تمام علماء کرام کا قول بھی یہی ہے۔ محیط میں یہ لکھا کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھنے کے بجائے قصدًا سکوت اختیار کرے تو یہ خلاف سنت ہونے کی وجہ سے ایک غلط فعل ہوگا۔ حسن بن زیاد نے حضرت امام اعظم (رح) کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں قرأت کرنا واجب ہے۔ ابن شیبہ نے حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابن مسعود ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پہلی دونوں رکعتوں میں قراءت کرو اور آخری دونوں رکعتوں میں تسبیح پر اکتفاء کرو اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھ لے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور یہی صحیح بھی ہے کیونکہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کا پڑھنا سنت ہے اور کسی دوسری سورت کا ترک کرنا واجب نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ سہو کسی واجب کو چھوڑ دینے یا واجب پر عمل نہ کرنے ہی کی وجہ سے ضروری ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد (رح) کے ہاں اولی اور صحیح یہ ہے کہ آخری دونوں رکعتوں میں سورت فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا پڑھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ آخری دونوں رکعتوں میں کبھی کبھی سورت فاتحہ کے علاوہ اور کوئی سورت یا کچھ آیتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے لیکن سورت فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا نہ پڑھنا ہی مستحب ہے۔
Top