مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 889
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّا حِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُوْنِی مِنْ اُمَّتِیَ السَّلَامُ۔ (رواہ النسائی والدارمی)
فرشتے امتیوں کے سلام رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتے ہیں
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔ (سنن نسائی، دارمی)

تشریح
اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضہ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چناچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ ﷺ پر قلیل یا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں تو فرشتے ان کا سلام بارگاہ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔ البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے۔ جب وہ بارگاہ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کے سلام آنحضور ﷺ خود سنتے ہیں۔ اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو حیات جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اس طرح آپ ﷺ کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کے لوگ جب آپ ﷺ پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ ﷺ خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔ سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ۔ آپ ﷺ سلام بھیجے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب فرشتے سلام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں مثلا وہ فرماتے ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ! مولانا محمد قطب الدین محی الدین آپ کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کرتے ہیں۔ یا آپ کا ایک ادنیٰ غلام عبداللہ جاوید ابن مولانا محمد عبدالحق خدمت اقدس میں نذرانہ سلام پیش کرتے ہیں۔ یا فقیر محمد اصغر خدمت عالیہ میں سلام عرض کرتا ہے۔ جاں می دہم درآز والے قاصد آخر باز گو در مجلس آں نازنیں حرفے کہ ازامامی رود
Top