مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 890
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلٰی رُوْحِیْ حَتّٰی اُرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ۔ (رواہ ابوداؤد و البیہقی فی الدعوات الکبیر)
رسول اللہ ﷺ سلام بھیجنے والے کے سلام کا جواب دیتے ہیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (سنن ابوداؤد، بیہقی)

تشریح
اہل سنت والجماعت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ آقائے نامدار فخر دو عالم ﷺ (فداہ ابی و امی) عالم برزخ میں زندہ ہیں مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ عالم برزخ میں زندہ نہیں ہیں بلکہ جب کوئی آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہے تو اس وقت آپ ﷺ کی روح مبارک جسم میں لوٹ آتی ہے پھر آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ روح لوٹانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روح مبارک آپ ﷺ کے مقدس بدن میں ہمہ وقت موجود نہیں رہتی صرف سلام بھیجنے کے وقت اسے کچھ وقت کے لئے بدن میں واپس کردیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ۔ آپ ﷺ کی روح مبارک چونکہ ہمہ وقت مشاہدہ رب العزت میں مستغرق رہتی ہے اس لئے اس کو حالت استغراق و مشاہدہ سے ہٹا کر اس عالم کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے تاکہ آپ ﷺ اپنے امتیوں کے درود وسلام سنیں اور اس کا جواب دیں۔ چناچہ روح مبارک کے اسی متوجہ کرنے اور آگاہ کرنے کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے ورنہ تو تمام انبیاء صلوات اللہ علیہم اجمعین اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اب سوال یہ رہ گیا کہ حدیث میں مذکورہ فضیلت خاص طو پر ان لوگوں سے متعلق ہے جو روضہ اقدس پر حاضری دیتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں یا عمومی طور پر سب لوگوں کے لئے ہے؟ تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فضیلت کا تعلق عمومی طور پر ہے۔ یعنی خواہ کوئی آدمی آپ ﷺ کے مزار اقدس پر حاضر ہو کر سلام پیش کرے یا کسی دور دراز علاقے سے سلام بھیجے۔ سلام بھیجے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ جو آدمی روضہ اقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں کرسکتا آپ ﷺ ان کا سلام فرشتوں کے واسطے سے سنتے ہیں جیسا کہ تیسری فصل میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی آنے والی حدیث سے بھی معلوم ہوجائے گا۔
Top