مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 903
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ۔ (رواہ الترمذی)
قبولیت دعا درود پر موقوف ہوتی ہے
اور امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ دعا اس وقت تک آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اور اس میں سے کوئی چیز اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ تم اپنے نبی پر درود نہ بھیجو (جامع ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت درود پر موقوف ہے کیونکہ درود خود مقبول ہے اس لئے اس کے توسط اور وسیلے سے دعا بھی مقبول ہوتی ہے مور مسکین ہو سے داشت کہ درکعبہ رسد دست در پائے کبوتر زدہ ناگاہ رسید حصن حصین میں منقول ہے کہ حضرت شیخ ابوسلیمان درانی (رح) نے فرمایا جب تم اللہ کے سامنے اپنی کسی حاجت کی تکمیل کے لئے دست دعا دراز کرو تو ابتداء رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے سے کرو اس کے بعد تم جو کچھ چاہتے ہو اس کے لئے دعا مانگو اور دعا کو درود پر ختم کرو (یعنی دعا سے پہلے بھی رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو اور دعا کے بعد بھی) کیونکہ اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم سے دونوں درودوں کو قبول کرتا ہے اور وہ اس چیز سے بزرگ و برتر ہے کہ اس دعا کو چھوڑ دے جو ان دونوں درودوں کے درمیان ہے۔ (یعنی اللہ کے رحم و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ دونوں کو تو قبول کر کے ان کے درمیان مانگی جانے والی دعا کو قبول نہ کرے) علامہ طبیی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہو اس شکل میں یہ حدیث موقوف ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہو اس صورت میں یہ حدیث مرفوع ہوگی اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عمر ؓ کا ہی ارشاد ہے۔ لیکن محققین علمائے حدیث فرماتے ہیں کہ اس قسم کی بات کوئی راوی اپنی طرف سے کہہ نہیں سکتا (جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر ١٧ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے) اس لئے یہ حدیث روایۃ تو موقوف ہی ہے لیکن حکما مرفوع ہے۔
Top