مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 983
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی بِھِمْ فَسَھَا فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ ثُمَّ تَشَھَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ
درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں
اور حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھائی ( درمیان نماز) آپ ﷺ کو سہو ہوگیا، چناچہ آپ ﷺ نے (سلام پھیر کر) دو سجدے کئے اس کے بعد آپ ﷺ نے التحیات پڑھی اور سلام پھیرا ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
حضرت عمران کا قول فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ نے سلام پھیر کر سہو کے دونوں سجدے کئے جیسا کہ تیسری فصل کی پہلی حدیث سے (جو انہیں سے مروی ہے) بصراحت معلوم ہوجائے گی۔ اس حدیث میں نماز کا وہ رکن ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا اور آپ ﷺ اس کی ادائیگی کو بھول گئے تھے نیز اس حدیث میں سجدے کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایتوں میں تشہد کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عمران کی اس روایت کی روشنی میں جو تیسری فصل میں آرہی ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ پہلے سلام پھیر کر پھر سجدہ سہو کرنا چاہیے۔ اسی طرح امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ شوافع و مالکیہ کے بعض حضرات کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ درود و دعا جو التحیات میں پڑھی جاتی ہیں اسے تشہد میں پڑھنا چاہیے جو سجدہ سہو سے پہلے ہے یا سجدے کے بعد کے تشہد میں پڑھنا چاہیے؟ چناچہ امام کرخی نے تو یہ اختیار کیا ہے کہ درود و دعا سجدہ سہو کے بعد کے تشہد میں پڑھے جائیں اور ہدایہ میں بھی اسی کو صحیح کہا گیا ہے۔ البتہ ہدایہ کی بعض شروح میں یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے تشہد میں پڑھنا بہتر ہے۔ امام طحاوی کا قول یہ ہے کہ دونوں تشہد میں پڑھنا چاہیے۔ شیخ ابن ہمام نے بھی امام طحاوی کے قول کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے۔ حنفیہ کا معمول پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ التحیات پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیرا جائے اس کے بعد سہو کے دو سجدے کئے جائیں اس کے بعد دوبارہ التحیات اور پھر درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے۔
Top