مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 985
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَےْنٍص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الْعَصْرَ وَسَلَّمَ فِیْ ثَلٰثِ رَکْعٰتٍ ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَہُ فَقَامَ اِلَےْہِ رَجُلٌ ےُقَالُ لَہُ الْخِرْبَاقُ وَکَانَ فِیْ ےَدَےْہِ طُوْلٌ فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَذَکَرَ لَہُ صَنِےْعَہُ فَخَرَجَ غَضْبَانَ ےَجُرُّ رِدَآءَ ہُ حَتَّی انْتَھٰی اِلَی النَّاسِ فَقَالَ اَصَدَقَ ھٰذَا قَالُوْا نَعَمْ فَصَلّٰی رَکْعَۃً ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَےْنِ ثُمَّ سَلَّمَ۔ (صحیح مسلم)
درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں
حضرت عمران ابن حصین ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر میں تشریف لے گئے۔ ایک آدمی نے کہ جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے انہوں نے (یعنی ذوالید ین) کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اور انہوں نے (یعنی ذوالیدین) نے واقعہ بیان کیا (یعنی تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بارے میں ذکر کیا یہ سن کر رسول اللہ ﷺ غصے میں اپنی چادر مبارک کھینچتے ہوئے باہر نکلے اور لوگوں کے پاس (مسجد میں) پہنچے اور فرمایا کہ کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی ہاں! چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیر اور سہو کے دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ تین رکعت کے بعد سلام پھیر کر گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے تشریف لائے، اس عرصے میں قبلے کی جانب سے منہ بھی پھرا، گفتگو بھی ہوئی اور بہت زیادہ چلنا ہوا، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک رکعت جو پڑھنے سے رہ گئی تھی پڑھی، لہٰذا یہ افعال سہواً ہونے کے باوجود ( بھی حنفیہ کے مسلک میں چونکہ مفسد نماز ہیں اس لئے حنفیہ کی جانب سے اس حدیث کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ نماز میں گفتگو کی طرح یہ بھی منسوخ ہے یعنی یہ افعال و کلام پہلے نماز میں جائز تھے پھر بعد میں منسوخ ہوگئے۔ اور یہ واقعہ جواز کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔ خرباق انہیں ذوالیدین کا نام ہے جن کی حدیث اس سے پہلے (نمبر ٤) گزر چکی ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ واقعہ جو حدیث نمبر ٤ میں ذکر کیا گیا ہے دونوں ایک ہی ہیں لیکن اس حدیث اور حدیث نمبر ٤ میں چونکہ بعض باتوں میں با ہم تضاد ہے اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ایک ہی نہیں بلکہ الگ الگ واقعات ہیں اور دونوں واقعوں میں رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کرنے والے حضرت ذوالیدین ہی تھے۔ اس حدیث کے آخری جملوں سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے سلام پھیرا پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیر کر نماز پوری کی، چناچہ علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ یہی مسلک امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے کہ ان کے یہاں سلام کے بعد سہو کے دو سجدے زیادتی اور نقصان کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اس کے بعد تشہد پڑھا جاتا ہے اور سلام پھیرا جاتا ہے۔
Top